اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کریں،تاکہ ان کو معلوم ہوسکے کہ فلاں وقت کی نماز بھی ہمارے ذ۔ّمے فرض ہوگئی۔ دوسرے بعد علمِ انقطاع کے بھی پورے پورے کئی کئی وقت غسل میں دیر کرکے ٹال دیتی ہیں اور پھر غضب یہ ہے ادا نہ کرنے کا گناہ تو اپنے سر لیا ہی تھا، ان اوقات کی نمازوں کی قضا بھی نہیں پڑھتیں اور اس طرح سے ہر مہینے ان کے ذ۔ّمے کئی کئی نمازیں چڑھتی چلی جاتی ہیں جن کا مجموعہ عمر بھر میں ایک بڑی مقدار کو پہنچتا ہے۔ اگر ہر مہینے تین ہی تین نمازیں جمع ہوتی رہیں تو سال بھر میں چھتیس اور تیس برس میں ایک ہزار سے زیادہ ہوتی ہیں، پھر ان کی نہ حیات میں قضا ہے نہ مرتے وقت ان کے فدیہ کی وصیت ہے، آخر انھوں نے قیامت کے لیے کیا جواب تیار کررکھا ہے؟ اور پھر اس پر یہ گمان کہ ہم نماز کے پابند ہیں، جب قیامت میں یہ غلطی خلافِ توقع ظاہر ہوگی اُس وقت کیا حال ہوگا؟بے پروائی کا علاج : ان سب کا علاج بھی وہی دو اَمر ہیں جو اُوپر مذکور ہوئے، یعنی وعیدوں میں غور کرنا، نفس پر جبر کرنا، اور جو غلطی احکام نہ جاننے سے ہے اس کے لیے احکام کا سیکھنا پوچھنا۔ چوںکہ عورتوں کو غالب احوال میں پوچھنے کا سامان کم میسر ہوتاہے، اس لیے مردوں پر واجب ہے کہ اپنے متعلقین کو احکامِ شرعیہ بتلاتے رہیں، جو نہ معلوم ہوں ۔ُعلما سے تحقیق کرکے بتلادیں اور عورتوں پر واجب ہے کہ جو صورت پیش آئے گھر کے مردوں کو فرمایش کریں کہ وہ ۔ُعلما سے پوچھ کر ان کو بتلادیں، اور اگر گھر کے مرد غفلت کریں دوسرے شخص کے واسطے سے تحقیق کریں، اگر کوئی توجہ نہ کرے تو خود ۔ُعلما کے گھر جاکر ان کے محارم یا بیبیوں کے ذریعہ سے دریافت کریں، ورنہ گناہ گار ہوں گی۔ اور ضروری احکام پوچھنے کے لیے جب جانے کی ضرورت ہو،اگر شوہر جانے سے منع کرے تو اس کی اطاعت واجب، بلکہ جائز بھی نہیں اور اگر لکھنا آتا ہو تو جانے کی ضرورت نہیں، بہ ذریعہ خط کے دریافت کرتی رہیں۔ اور یہ سب جب ہے جب کہ کوئی مرد خاندان کا ان کے کہنے سے ۔ُعلماسے مسئلہ پوچھ کر ان کو نہ بتلائے، ورنہ کسی کو خط لکھنا یا کہیں جانا اپنے شوہر کے خلافِ مرضی جائز نہیں۔ بعضی عورتوں کے پابند نہ ہونے کا ایک سبب اور ہے وہ یہ کہ ایسی طبائع کم ہیں جو محض خدا کے خوف سے بجا آوریٔ احکام کا اہتمام کرتی ہوں، زیادہ سبب مداومت کی عادت ہے، سو چوں کہ عورتوں کو ہر ماہ میں بہ وجہ ایامِ معمولی کے کئی کئی روز تک نماز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوتا، اس کا اثر بعد پاک ہونے کے بھی یہ رہتا ہے کہ بعض اوقات نماز میں سستی ہوجاتی ہے، گو اس کا اصلی علاج تو یہی ہے کہ خدائے تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کیا جائے، مگر سببِ ظاہری کا علاج کہ وہ بھی ایک درجے