اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہا بعض عرفا کا کچھ کونیات کو مستنبط کرنا تو وہ از قبیلِ تفسیر نہیں ہے، جیسا اہلِ فال کا اعتقاد ہے، بلکہ از قبیلِ تعبیر ہے کہ اُصول اس کے خود دقیق ہیں، جو اہلِ فال کے خواب میں بھی نہیں آئے، اور باوجود اس تمام دِ۔ّقت کے پھر وہ ظنی ہیں، کیوںکہ وہ خود اُصول ہی کشفی ہیں، جن کی ظنی ہونے پر اہلِ حق کا اتفاق اور ان کے کلام میں اس کی تصریح ہے، پھر اس فال دیکھنے والے کو بزرگوں کے اس قول وعمل سے انتفاع کا کیا حق رہا؟فال اور اِستخارے کا فرق : مثلاً:ا س کا اِستخارے1 پر قیاس کرنا کہ محض قیاسِ باطل ہے ۔ کئی وجہ سے، ایک تو یہ کہ اِستخارہ دلیلِ شرعی سے ثابت ہے، اور یہ بہ قیودِ مذکورہ کسی دلیل صحیح سے ثابت نہیں۔ دوسرے یہ کہ خود مقیس علیہ بھی واقعاتِ گزشتہ کی تحقیق کے لیے نہیں۔ مثلاً: کسی کے یہاں چوری ہوجائے تو اِستخارہ اس غرض کے لیے نہ جائز، اور نہ مفید کہ چور معلوم ہوجائے، جیسا فال والے اس قسم کی حکایتوں کو نہ بہ طورِ ظرافت کے بلکہ بہ طورِ اعتقاد کے بیان کیاکرتے ہیں۔اِستخارے کے ساتھ اعتقادِ باطل کاہونا : کسی بادشاہ کا موتیوں کاہار گم ہوگیا تھا، اس نے دیوانِ حافظ میں فال دیکھی، رات کا وقت تھا، چراغ ایک کنیز کے ہاتھ میں تھا، یہ مصرع نکلا ع چہ دلاورست دوزدی کی بکف چراغ دارد یعنی چور کتنا بہادر ہے، جس کے ہاتھ میں چراغ ہے۔ بس بادشاہ نے فوراً اسی کنیز کوپکڑلیا اور تلاشی لینے سے اس کے پاس برآمد ہوا۔ اوّل تو ان قصوں کی کوئی سند صحیح نہیں، ثانیاً اگر ایسا واقعہ ہوا ہو تو اتفاق پر محمول ہوگا، کیوں کہ ملازمت کی کوئی دلیل نہیں، اور اگر تجربے سے ملازمت پر استدلال کیا جائے، تو ہم بہ طور معارضہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہے تو بیس بار اس کے خلاف ہوا کہ فال میں کچھ نکلا اور واقعہ کچھ اور تھا، تو تجربہ یعنی تکرارِ مشاہدہ سے ملازمت ثابت ہوئی یا عدمِ ملازمت؟ غرض فال کا مقیس علیہ یعنی اِستخارہ، واقعۂ گزشتہ کے علم کے لیے نہ مفید اور نہ جائز۔ تا بفال چہ رسد