اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گھر کا مرد تعلیم دے تو جو مسائل شرمناک ہوں ان کو چھوڑدے، اپنی بی بی کے ذریعے سمجھوادے، اور اگر یہ انتظام بھی نہ ہوسکے تو ان پر نشان کردے تاکہ ان کو یہ مقامات محفوظ رہیں پھر وہ سیانی ہوکرخود سمجھ لیں گی یا اگر عالم شوہر میسر ہو اس سے پوچھ لیں گی یا شوہر کے ذریعہ سے کسی عالم سے تحقیق کرالیں گی۔ (چناںچہ بندہ نے ’’بہشتی زیور‘‘ کے دستور العمل میں جو ٹائٹل پر مطبوع ہوا ہے، اس کا خلاصہ لکھ دیا ہے، مگر بعضے لوگ اس کو دیکھتے ہی نہیں اور اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی مرد پڑھانے لگے تو ایسے مسائل کس طرح پڑھاوے؟اس لیے ان کا لکھنا ہی کتاب میں مناسب نہ تھا‘‘ کیسی کچھ سمجھ ہے!)۔ ’’بہشتی زیور‘‘ کے اخیر میں مفید رسالوں کانام بھی لکھ دیا گیا ہے جن کا پڑھنا اور مطالعہ عورتوں کو مفید ہے، اگر سب نہ پڑھے، ضروری مقدار پڑھ کر باقیوں کو مطالعے میں ہمیشہ رکھیں۔ اور تعلیم کے ساتھ ان کے عمل کی بھی نگرانی رکھیں اور اس کا بھی انتظام کریں کہ ان کو تدریس کا شوق ہو، تاکہ عمر بھر علمی شغل رہے تو اس سے علم وعمل کی تجدید وتحریز ہوتی رہتی ہے اور اس کی بھی ترغیب دیں کہ مطالعۂ کتبِ مفیدہ سے کبھی غافل نہ رہیں اور ضروری نصاب کے بعد اگر طبیعت میں قابلیت دیکھیں عربی کی طرف متوجہ کریں، تاکہ قرآن وحدیث وفقہ اصلی زبان میں سمجھنے کے قابل ہوجائیں۔ اور قرآن کاخالی ترجمہ جو بعض لڑکیاںپڑھتی ہیں، میرے خیال میں سمجھنے میں زیادہ غلطی کرتی ہیں، اس لیے اکثر کے لیے مناسب نہیں، یہ تو سب پڑھنے کے متعلق بحث تھی۔عورتوں کو لکھنا سکھلانے کے متعلق حکم : رہا لکھنا تو اگر قرائن سے طبیعت میں بے باکی معلوم نہ ہو تو کچھ مضایقہ نہیں، ضروریاتِ خانگی کے لیے اس کی بھی حاجت ہوتی ہے۔ اور اگر اندیشہ خرابی کا ہو تو مفاسد سے بچنا جلبِ مصالح غیر واجب سے اہم ہے، ایسی حالت میں لکھنا نہ سکھلاویں اور نہ خود لکھنے دیں۔ اور یہی فیصلہ ہے ۔ُعقلا کے اس اختلاف کا کہ لکھنا عورت کے لیے کیسا ہے؟ اب مضمون کو ختم کرتاہوں۔