اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے اعتقاد سے نفع اُٹھایا جارہا ہے، جس پر میں نے مجمل کلام اپنے بعض رسائل1 میں بہ زبانِ اُردو اور اسی رسالے کے حاشیہ ملحقہ بالاخیر میں بہ عبارت عربیہ کیا ہے۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ اس باب میں نہ رائے محض معتبر ہے، اور نہ کسی آیت یا حدیث کے ظاہری مفہوم پر غیر مجتہد کو عمل درست ہے، اور نہ عامی کو محض مطالعہ فقہ کا کافی ہے، بعد انقراض زمانہ ٔاجتہاد کے عالم کو کتبِ فقہیہ کا اِتباع اور عامی کو۔ُعلما سے استفسار کرکے عمل کرنا واجب ہے، اور یہی معیار ہے عذر کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا، بے علمی میں بعض اوقات قصد ہوتا ہے قرآن وحدیث وفقہ کے اتباع کا، اور لازم آجاتا ہے اتباع اپنی رائے اور ہویٰ کا، کیا یہ بات ظاہر نہیں ہے کہ جو شخص طبیب نہ ہو وہ اگر کتاب دیکھ کر کسی مریض کے لیے نسخہ لکھ دے تو کچھ تعجب نہیں کہ وہ نسخہ قواعدِ طب کے بھی خلاف ہو، اور جس جگہ اتباع کتاب و سنت وفقہ کا قصد بھی نہ ہو، اس کا ذکر ہی کیا!ایک اور کوتاہی : ۶۔ بعضے لوگوں کا اِفطار تو عذرِ شرعی سے ہوتاہے، مگر ان سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس عذر کے رفع ہونے کے وقت کسی قدر دن باقی ہوتاہے، اورشرعاً بقیہ دن میں امساک یعنی کھانے پینے سے بند رہنا واجب ہوتاہے، مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتے، مثلاً: سفرِ شرعی سے ظہر کے وقت واپس آگیا، یا عورت حیض سے ظہر کے وقت پاک ہوگئی تو ان کو شام تک کھانا پینا نہ چاہیے، علاج اس کوتاہی کا مسائل واحکام کی تعلیم و تعلّم ہے۔بچوں کو روزہ نہ رکھوانے میں غفلت : ۷۔ بعض لوگ خود تو روزہ رکھتے ہیں لیکن بچوں سے (باوجود اُن کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے) روزہ رکھوانے کی پروا نہیں کرتے، بلکہ بعض ان کے نابالغ ہونے کو دلیل بناکر اپنی رائے وعمل کو صواب سمجھتے ہیں، اور روزہ رکھوانے کو سختی سمجھتے ہیں۔ خوب سمجھ لیا جائے کہ عدم بلوغ سے ان بچوںپر واجب نہ ہونا تو لازم آتاہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے اَولیا پر بھی ان سے روزہ رکھوانا واجب نہ ہو، جس طرح نماز کے لیے باوجود عدمِ بلوغ کے ان کو تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے اسی طرح روزے کے لیے بھی۔ اتنا فرق ہے کہ نماز میں عمر کی قید ہے اور روزے میں تحمل پر مدار ہے، (یعنی جب روزے کی تکلیف کو برداشت کرنے کی قابلیت و طاقت آجائے، رکھوانا واجب ہے) اور اس میں راز یہ ہے کہ کسی کام