اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تجوید لاِرضائے خلق : پانچویں کوتاہی یہ ہے کہ بعضے تجوید پر قدرت حاصل کرلیتے ہیں، مجالس یا حالتِ امامت میں جب پڑھنے کا اتفاق ہوتاہے اس پر عمل بھی کرتے ہیں، مگر جب خلوت میں تلاوت یا حالتِ انفراد میں نماز ادا کرتے ہیں اس وقت اس کی طرف التفات بھی نہیں کرتے، جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تصحیح سے غرض ارضائے خلق تھی، نہ کہ ارضائے خالق۔ کیا کسی فعل کے کسی ثمرے کے ترتب کے لیے قوت و استعداد کا مرتبہ کافی ہے؟ یا صدورِ فعلیت کی ضرورت ہی کیا تجوید پر صرف قدرت ہونے سے تجوید کے ثمرات مثل ادائے واجب و تضاعفِ اجر و رضائے حق وادائے حق حاصل ہوسکتے ہیں یا اس کے عمل واجراکی بھی ضرورت ہے؟ کیا کسی خارشی کو محض نسخے کے یاد کرلینے سے اچھا ہوتا ہوا بھی دیکھا ہے یا اس کے استعمال کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟ بالخصوص ۔ّسری نمازوں میں تو غنہ اور مد و اظہار و اخفا کا تو کیا ذکر ہے، غالباً بلکہ یقینا مخارج و صفاتِ حروف پر بھی نظر نہیں ہوتی جوکہ لوازمِ حروف سے ہیں اور وہ نہیں تو حروف نہیں، اور جب حروف نہیں، جو کہ بسائط ہیں تو قرآن کی عبارت نہیں جوکہ مرکب تھی، اور جب عبارت نہیں تو قرأ ت نہیں، تو نماز کہاں؟ فلیتدبروا ولیتذکروا (بار بار غور و فکر کریں) اور یوں ابتلائے عام کو پیشِ نظر رکھ کر اس پر فتویٰ نہ دینا یہ دوسری بات ہے، مگر ترکِ واجب کے گناہ سے بچنے کے لیے بھی عمومِ بلوا کافی ہوسکتا ہے، ومن لنا بذلک (اس کی گارنٹی دیتا ہے؟) اور اگر مستحسنات سے قطع نظرکی جائے مگر ضروریات کی حفاظت سے توچارہ نہیں!معانی ٔقرآن سے غفلت : چھٹی کوتاہی یہ ہے کہ قرآن کے معنی جاننے کی رغبت جس قدر کہ کم پائی جاتی ہے، قریب قریب نہ ہونے کے ہے، سخت افسوس کی بات ہے کہ جو اصل مدار ہے اسلام کا، جو منبع ہے تمام دینی علوم کا، جو اساس ہے دارین کے فلاح کا، جو خاص علاقہ ہے معاملہ وخطاب کا اللہ تعالیٰ و رسول اللہﷺ سے اور آپ کی اُمت کو نہ خبر، نہ خبر کا شوق، ہماری اس جمود و خمود کی کوئی انتہا بھی ہے! شاید بعض طالبِ علم ناز کرتے ہوں کہ ہم کو توشوق تھا جب ہم نے تفسیر پڑھی، سو کہنا تو اور بات ہے، اور انصاف سے کہنا اور بات ہے۔ اگر انصاف سے غور کریں تو اس کانام رغبت رکھنے سے خود ان کو ضرور شرم آئے گی، غور کرکے بتلادیں کہ اگر تفسیر درس میں داخل نہ ہوتی، کیا اُس وقت بھی پڑھتے؟ چناںچہ جو کتاب تفسیر کے درس میں داخل ہے اس سے زیادہ بھی کوئی