اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے احکام میں بہ وجہ جہل کے اختلال واختلاف (جہالت کی وجہ سے خرابی اور اختلاف) ہوگا، گو ایسا واقعہ کم پیش آتا ہے،مگر پیش آتا بھی ہے۔نکاحِ موقوف کی صورت میں شبِ زفاف میں عورت اظہارِ ناراضی کردے تو نکاح نافذ ہی نہیں ہوگا : اور ہم بستری کی حرمت (حرام ہونے) کی خرابی تو سب ہی جگہوں پر پیش آتی ہے، اور اگر ایسی صورت میں کہ نکاح نافذ نہ ہو، ہم بستری کے وقت بھی ناراضی و نفرت کا اظہار کرے جیسا کہ زفاف (پہلی مرتبہ کی ہم بستری) کے وقت بعض عورتیں کرتی ہیں تو وہ نکاح نافذ بھی نہیں ہوتا، پس تمام عمر حرام ہوتا رہتا ہے۔ ان ہی وجوہ سے بہت ضروری ہے کہ کم از کم نکاح خواں قاضی (نکاح پڑھانے والا قاضی) عالم ہونا چاہیے، تاکہ ان اُمور کا انتظام پورے طور سے کرے۔بارہ برس کی عمر کی لڑکی کی اجازت معتبر نہیں : ایک کوتاہی مسئلۂ ولایت کے متعلق یہ ہوتی ہے کہ عموماً لوگ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ بارہ برس کی عمر میںلڑکا اور لڑکی بالغ ہوجاتے ہیں، پس بعض جگہ ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی بارہ برس کی ہے اور واقع میں وہ نابالغ ہے، اور ولیقریب موجود ہے، مگر باوجود اس کے ولی بعید یا اجنبی غیر ولی اس لڑکی کو بالغ سمجھ کر اس کے منہ سے اجازت لے کر اور اس کو کافی سمجھ کر کہیں اس کا نکاح کر دیتا ہے، حالاںکہ بہ وجہ نابالغ ہونے کے اس کی اجازت اصلاً معتبر نہیں، سو سمجھ لینا چاہیے کہ بارہ برس میں بالغ ہونا ضروری نہیں، بلکہ اس کا بالغ ہونا حیض کے آنے سے ہے، البتہ اگر پندرہ برس پورے ہوکر بھی حیض نہ آئے تو پھر اس کے بلوغ (بالغ ہونے) کا حکم کردیا جائے گا۔اگر کسی نابالغ لڑکی کا نکاح باپ دادا کے علاوہ کسی ولی جائز نے کرایا ہو تو بعد بلوغ لڑکی کو فسخِ نکاح کا اختیار ہوگا : ایک کوتاہی ولایت کے متعلق ایک اور مسئلے میں ہوتی ہے، وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بجز باپ اور دادا (باپ اور دادا کے علاوہ) کوئی دوسرا ولی جائز نابالغ لڑکی کا نکاح کفو سے مہر ِمثل1 پر کردے تو نکاح تو صحیح ہوجاتاہے لیکن اس لڑکی کو بالغ ہونے کے وقت جب کہ اس کو پہلے سے خبر نکاح کی ہو یا بعد بالغ ہونے کے جب اوّل بار اس کو نکاح کی خبر ہو، اختیار ہے، اس نکاح کے فسخ