اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں مثلاً بارہ سو ساٹھ روپے کا ثواب ملا؟ خود کہ یابد ایں چنیں بازار را کہ بہ یک گل میخری گلزار را نیم جاں بستاند و صد جاں دہد آں چہ در وھمت نیاید آں دہد اور یہ عدد تو بہ طور مثال کے فرض کیا گیا، ورنہ جب صدقے میں سات سو کی حد نہیں۔ لقولہ تعالٰی: {اَمنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ مسُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌO}1 اُگیں سات بالیں ہر بال میں سو سو دانے، اور اللہ بڑھاتاہے جس کے واسطے چاہے، اور اللہ نہایت بخشش کرنے والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ تو قرض میں بھی بارہ سو ساٹھ کی حد نہ ہوگی، بلکہ اس سے بھی زیادہ توقع ہے، کیا اس کو بھی فائدہ نہ کہے گا؟ اور تضاعف ثواب القرض علٰی ثواب الصدقۃ کی تقریر کی تفصیل میں جہاں خاطر ِفاتر کا حوالہ ہے، بہ حیثیتِ مذکورہ کی قید اس لیے لگائی گئی کہ اس سے کوئی نہ سمجھ جاوے کہ قرض کا ثواب علی الاطلاق صدقے سے مضاعف ہوتا ہے، اور یہ سمجھ کر یا تو صدقے کی جگہ بھی قرض ہی دینے لگے، اور یاکہ صدقے میں بے رغبت ہوجاوے او اس میں خسارہ سمجھے۔ سو یہ بات ہے کہ مختلف احکام، مختلف حیثیت سے ہوتے ہیں، سو ایک حیثیت سے تو جس کا کہ ذکر ہوا قرض کا ثواب زیادہ ہے، مگر دوسری حیثیات سے صدقے کا ثواب قرض سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، مثلاً: قرض میں واپسی ہوتی ہے، صدقے میں واپسی نہیں ہوتی، اور اس وجہ سے صدقہ لینے والے کے قلب پر کوئی بار نہیں رہتا اور قرض لینے والے کے قلب پر بار رہتاہے۔ایک خدشے کا ازالہ : اور ہم نے قرض دینے میں فائدۂ دنیویہ بیان کیا ہے کہ باہم اُلفت ومحبت وہمدردی بڑھتی ہے، گو یہ فائدہ مقصود نہیں، مگر چوں کہ واقعی ہے اس لیے اس پر کوئی خدشہ واقع ہو تو اس کا رفع کرناضروری ہے، تو اس میں ظاہراً ایک خدشہ ہے، وہ یہ کہ ہم تو اکثر اس کے خلاف یہ دیکھتے ہیں کہ قرض دینے سے پہلی اُلفت بھی قطع ہوجاتی ہے اور ہمیشہ