اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دی جاوے بلکہ اہتمام کیا جاوے۔ اس فرق کی وجہ بعد تأمل بجز اس کے کچھ نہیں معلوم ہوئی کہ عورت سے صدورِ قبائح یا اس کی طرف نسبتِ قبائح عرفاً موجب ذلت اور رُسوائی ہے اور وہی اُمور اگر مر دسے صادر ہوں یا اس کی طرف منسوب ہوں تو وہ عرفاً موجبِ ذلت اور رُسوائی نہیں ہے، اس لیے عورت کے لیے ان مفاسد کے احتمال کو موانعِ تعلیم سے قرار دیا ہے اور مردوں کے لیے نہیں، باقی شرعاً ظاہر ہے کہ اس باب میں مرد وعورت یکساں ہیں، اگر عورت کے لیے معصیت مذموم و قابلِ لوم ہے تو اسی درجے میں مرد کے لیے بھی، اور اگر مرد کے لیے موجبِ طہارت ونزاہت ہے تو اسی درجے میں عورت کے لیے بھی۔پس جب شرعاً دونوں برابر ہیں اور عرفاً متفاوت، پس اس تفاوت سے عملاً متأثر ہونا یعنی ایک کے لیے ان احتمالات کا اعتبار کرنا دوسرے کے لیے نہ کرنا صاف عرف کو شرع پر ترجیح دینا ہے، جو بہت بڑا شعبہ ہے جاہلیت کا، جس کا منشا کبر اور ترـ۔ّفع ہے بس۔ اور یہ صرف میرا ہی دعویٰ نہیں بلکہ مدعا علیہم کا اقرار بھی ہے، چناںچہ بہ کثرت ان لوگوں کی زبان سے سنا گیا ہے کہ ’’میاں! مرد کا کیا ہے؟ اس کی مثال تو برتن کی سی ہے کہ دس دفعہ سن گیا اور جب دھویا صاف ہوگیا، اور عورت کی مثال موتی کی آب کی سی ہے کہ اگر ایک دفعہ اُتر گئی تو پھر چڑھ نہیں سکتی۔‘‘ اس کے معنی دوسرے لفظوں میں صاف یہ بھی ہیں کہ مردوں کے لیے معصیت کو خفیف سمجھتے ہیں اور عورتوں کے لیے شدید، تو علاوہ کبر کے اس میں تو فتویٰ استخفاف کے جاری ہونے کابھی اندیشہ اور سخت اندیشہ ہے۔تیسرے طبقے والوں کی غلطیوں کی نشاندہی : اب صرف تیسرے طبقے کے متعلق کلام باقی رہ گیا ہے جو تعلیم کے حامی تو ہیں، لیکن اس تعلیم کے تعین میں یااس کے طریقے کی تجویز میں ان سے غلطی ہوئی، چناںچہ ان میں سے بعض کا بیان بہ ضمنِ اصلاحِ خیال طبقۂ ثانیہ کے اُوپر ہوچکا ہے، مثلاً: ان کو صرف حرف شناس بناکر چھوڑ دینا، پھر ان کا اپنی رائے سے مختلف رسالوں کا مطالعہ کرنا، اور مثلاً بعد تعلیم کے عمل کی نگرانی نہ کرنا جس کی ۔ّمتعدد مثالیں بھی ساتھ ساتھ مذکور ہوئی ہیں۔عورتوں کو دُنیوی علوم بغیر ضرورت کے نہیں پڑھانے چاہییں : اور بعض کا بیان اب کیاجاتاہے، مثلاً: بعض مستورات کو بجائے علومِ دینیہ پڑھانے کے ان کو تاریخ و جغرافیہ یا اس سے بڑھ کر انگریزی پڑھاتے ہیں، اور سب سے بڑھ