اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خشوع کی حقیقت : سو حقیقتِ لغویہ خشوع کی سکون ہے اور حقیقتِ شرعیہ اس کی سکونِ ارادی ہے قلب وجوارح کا، اور سکون مقابل ہوتا ہے حرکت کے، سو جیسی حرکت ویسا سکون، تو جوارح کی حرکت اینیہ یعنی مکانیہ ہوتی ہے ، ان کا سکون یہی ہے کہ جس حرکت کا شرعاً امر نہیں وہ حرکت نہ کرے، یعنی ارادے سے ہاتھ پاؤں عبث نہ ہلائے، اِدھر اُدھر گردن یا نظر سے التفات نہ کرے، سر اُوپر کو نہ اٹھائے، بالوں کو، کپڑوںکو بار بار نہ سنوارے، بدون ضرورت نہ کھجلائے، نہ کھنکارے، ونحو ذلک۔ اور قلب کی حرکت فکریہ ہے، اس کا سکون عدم الفکر ہے، یعنی اپنے ارادے سے کسی بات کو نہ سوچے، سو جیسی حرکت جوارح کی اگر بلا قصد ہو، مثلاً: رَعشے سے کسی کی گردن ہلتی ہو تو وہ منافی خشوع کے نہیں، کیوںکہ اختیار سے خارج ہے اور اضطراریات امر ونہی کے تحت میں نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر حرکت قلب کی بلامقصد ہو یعنی کوئی خیال خود بہ خود آجائے تو وہ بھی اسی دلیل سے منافی خشوع کے نہیں، پس غلطی لوگوں کی یہ ہے کہ خشوع کے معنی یہ ہیں کہ بالکل خیال نہ آئے اور اسی بنا پر اس کو محالِ عادی سمجھتے ہیں، مگر اس بنا کا فاسد ہونا ہماری تقریر سے معلوم ہوچکا ہے، جس سے ۔ّمحرر ہوگیا کہ خشوع اختیاری فعل ہے اور ہر شخص اس پر قادر ہے اور بہت آسان ہے، البتہ ارادہ وتوجہ کی ضرورت ہے۔حصولِ خشوع کا طریقہ : پس جیسے سب افعالِ ارادیہ کی شان ہے کہ ارادہ کرو توآسان، ارادہ نہ کرو تو دشوار، حتیٰ کہ اگر منہ میں لقمہ لے کر بیٹھ جائے اور نگلنے کا ارادہ نہ کرے تو وہ بھی آسان نہیں، پس اگر لقمہ نگلنا آسان ہے تو خشوع بھی اُتنا ہی آسان ہے، اور اگر خشوع محال ہے تو لقمہ نگلنا بھی اُتنا ہی محال ہے، دونوں کے یسر اور عسر میں کچھ فرق نہیں۔ اور سہل طریقہ اس کا یہ ہے کہ نماز میں جو کچھ بھی منہ سے نکلے محض یاد سے نہ پڑھے، بلکہ ہر ہر لفظ پر مستقل ارادہ کرکے اس کو منہ سے نکالے کہ اب سبحانک اللّٰہم کہوں گا، اب وبحمدک کہہ رہا ہوں، اب وتبارک اسمک منہ سے نکل رہا ہے، وعلی ہذا۔ پس جب ہر لفظ پر خاص توجہ رہے گی لا محالہ حسب ِقاعدہ عقلیہ کہ اَلنَّفْسُ لَا تَتَوَجَّہُ إِلٰی شَیْئَیْنِ فِيْ آنٍ وَاحِدٍ۔ نفس ایک وقت میں دو چیزوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ دوسرے خیالات بند ہوجائیں گے۔