اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے خلاف کا مستحسن ہونا خیال میں بھی نہ آئے۔ بلکہ اِجمالاً یوں سمجھئے کہ بس تمام خیرو برکت اور حکمت و مصلحت اور فلاح و صلاح اسی میں منحصر ہے، خواہ ہمارا ذہن کوتاہ اس کی تفصیل تک پہنچے یا نہ پہنچے، بہ قول حضرت عارف گنجوی ؒ : زبان تازہ کردن باقرارِ تو نینگیختن ۔ّعلت از کارِ تو آپ کے اقرار کے ساتھ زبان کوتازہ کرنا ہے نہ کہ آپ کے کام میں کوئی علت نکالنا۔سب سے زیادہ سلیم و صالح طبائع کا حال : صرف حکیمِ ۔ّتمدن ہونے کے لحاظ سے جو اعتقادِ عظمت ہوتاہے اس کے آثار یہ ہیں کہ حکم سن کر اتنا ہی اثر ہو جو ایک مخلوق ذی رائے کی رائے کو سن کر ہوتاہے، اور یہ کہ اس کے قبول کرنے میں یا اس کو بہ نظرِ وقعت دیکھنے میں اس کا بھی انتظار ہو کہ اس میں عقلی( اور عقلی میں بھی دنیوی) مصلحت کیاہے؟ جب تک مصلحت نہ معلوم ہو اس میں سخت تردّد و خلجان رہے اور ہرگز اس پر عمل کرنے میں شرحِ صدر نہ ہو۔ خود بھی ایک قسم کی تنگی او جبر و تحکم کا سا اثر رہے اور دوسروں کے سامنے بھی اس کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک گونہ خجلت اور بے وقعتی کی سی کیفیت رہے، اور بار بار اس حکم کی جانبِ مخالف کی ترجیح کا حکم اور اس کی تمنا کا قلب پر غلبہ رہے اور ہرگز اس کے صحیح ہونے کا دل کھول کر حکم نہ کرسکے، بلکہ اس میں فکر رہے کہ کسی طرح اس کا شرعی ہونا ثابت نہ ہو، اور جب اور کچھ نہ ہوسکے تو بعض تاویلات سے اس حکم کے شرعی ہونے کا انکار کردے، کبھی اس کے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہونے میں شبہات پیدا کرے، بلکہ اس کو راویوں کی نقل کی غلطی یا ان کی رائے کی آمیزش کا اثر بتلادے، کبھی رسول اللہﷺ کی طرف منسوب ہونے کو تسلیم کرکے خود آپﷺ کی نسبت کسی ضرورت و مصلحتِ وقت کے اتباع کا دعویٰ کرے اور چوںکہ وہ مصلحت باقی نہ رہی، لہٰذا اس حکم کو بھی موجود نہ سمجھے، غرض ہزاروں حیلے نکالے، مگر اس حکم کو نہ مانے یا اگر مانے تو اعتقاد سے نہ مانے، بلکہ بدنامی سے بچنے کو یا قومی شیرازہ کے منتشر نہ ہونے کی ضرورت سے مانے یا اعتقاد ہی سے مانے، مگر نشاطِ خاطر کے ساتھ نہ مانے بلکہ مذہبی مجبوری سمجھ کر مانے، اور یہ ان سب میں سے زیادہ سلیم و صالح طبائع کاحال ہے۔ یہ وہ مراتب ہیں جو کم وبیش سب کفر سے ملے ہوئے ہیں، کوئی صریح کفر ہے، کوئی خفی کفر ہے، کوئی کفر بننے کو ہے، کمالا یخفی علی المتفطن السلیم۔