اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئے، اسی طرح اگر اس کا سال ذی الحجہ میں ختم ہوتا ہے، اور رمضان میں اس کے پاس آٹھ سو روپے تھے، مگر ذی الحجہ میں ہزار ہوگئے تب بھی بعینہٖ یہی غلطی ہوئی، اسی طرح ہرختمِ سال پر یہی احتمال ہے۔ سو فرض کیجیے اگر اتفاق سے پانچ سال تک یہی قصہ رہا کہ ختمِ سال پر تو ہزار روپے ہوتے ہیں، اور رمضان میںآٹھ سو روپے تو پانچ روپے سال جمع ہوکر پانچ سال میںپچیس روپے اس کے ذ۔ّمہ واجب الادا رہا، تو ایسا ہوگیا جیسے پانچ سال میں چار سال کی زکوٰۃ دی، اور ایک سال کی نہ دی، اس لیے یہ ضرور ہے کہ ختمِ سال پر کے نصاب کو ضرور دیکھا جائے، اور اس کی زکوٰۃ کی مقدار کو یاد رکھے، پھر اگر سال رمضان سے پہلے ختم ہوا ہے، تو رمضان شریف میں اس مقدار برابر خیال کرکے زکوٰۃ دے، اور اگر رمضان کے بعد سال ختم ہوتا ہے تو رمضان میں جتنا اندازے سے دیا ہے اس کو یاد رکھیں ، پھر ختمِ سال پر جتنی مقدار زکوٰۃ کی ہے اس ادا کی ہوئی کو اس سے ملادے، اگر کچھ ادا کرنے سے رہ گیا ہو تو پورا کرے، اور اگر زیادہ دے دیا ہو تو اگلے سال میںلگالینا جائز ہے۔زکوٰۃ کو صحیح مصرف پر نہ دینا : ۵۔ ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے آدمی زکوٰۃ نکال کر اس کے مصرفِ شرعی میں۔َصرف نہیں کرتے، مثلاً: بعضے اپنے پیروں کو دیتے ہیں گو وہ صاحبِ نصاب ہو، بعض مساجد کے ائمہ و مؤذّنین کو ان کی تنخواہ کے حساب میں دیتے ہیں، بعضے چندئہ مدارس میں دیتے ہیں، اور مہتمم کو اطلاع نہیں کرتے، اور وہ اس کو تعمیر یا فرش یا تنخواہِ مدرّسین یا خریدِ کتب میں ۔َصرف کردیتا ہے، بعضے مردے کے کفن میںخرچ کردیتے ہیں، اور ان سب صورتوں میں زکوٰۃ سرپر رہتی ہے، ادا نہیں ہوتی، اسی طرح سادات وبنی ہاشم ’’بقول اصح‘‘ اس کے ۔َمصرف نہیں ہیں اور جن کو دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، ان کو اگر ملنے کے وقت اطلاع ہوجائے کہ یہ زکوٰۃ ہے تو شامی نے بعض ۔ُفقہا سے نقل کیا ہے کہ ان کو لینا بھی حرام ہے، اور اگر ان قرائن سے معلوم ہو کہ دینے والے کو ہمارا غیر۔َمصرف ہونا معلوم نہیں تو اطلاع کرنا واجب ہے، اور اِخفا یا سکوت بالاتفاق حرام ہے، اور اگر لے لیا تو صاحب نصاب کو مکرر زکوٰۃ ادا کرناہوگی۔ البتہ کفنِ میّت میں اس طرح ۔َصرف ہوسکتا ہے کہ اس میّت کے کسی غریب قریب کو دے دیا جائے، پھر وہ اپنے اختیار اور رائے سے بلا اس کے کہ اس کو کوئی کسی طرح مجبور کرے، اس کا کفن لاکر اپنی طرف سے ڈال دے، اسی طرح امام ومؤذن کو ان کے مقرر کیے ہوئے کے علاوہ اگر وہ مسکین ہوں تو زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔