اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اطلاع کردی جائے اور وہ کھانا قیمت میں اس قدر ہو، تب تو زکوٰۃ ادا ہوجائے گی، اور اگر لے جانے کا اختیار نہ ہو بلکہ بٹھلا کر کھلایا جائے تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ اسی طرح اگر پکاہوا کھانا اس قیمت کا ہو جو جتنی زکوٰۃ اس کے ذ۔ّمہ واجب تھی، تب بھی پوری زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، مثلاً: ایک شخص کو بیس روپے زکوٰۃ کے دینے ہیں، اس نے جنس خرید کر پکوائی، کچھ خریدمیں ۔َصرف ہوا، کچھ باورچی کو مزدوری میں دیا، غرض بیس روپے ۔َصرف ہوگئے، مگر کسی وجہ سے خواہ تو جنس خریدنے میں یہ ٹھگاگیا، یا مزدوری زیادہ دے دی، یا کھانا بگڑگیا، غرض کسی طور پر تیار کھانا بیس روپیہ کا نہ ہوا بلکہ سترہ، اٹھارہ کا ہوا، تو یوں نہ کہیں گے کہ اس نے تو بیس ہی روپے خرچ کیے اس لیے زکوٰۃ ادا ہوجانا چاہیے، بلکہ یوں کہیں گے کہ مساکین کو سترہ، اٹھارہ ہی روپے کی چیز پہنچی اس لیے اتنی ہی زکوٰۃ ادا ہوئی، دو یا تین روپے اور اس کے ذ۔ّمے باقی رہے جس کاادا کرنا واجب ہے، اس طرح زکوٰۃ کی رقم کا کپڑا خریدا اور سلوایا، اگر وہ بعد تیاری کے اتنی رقم کا ہے تب تو اس کے دینے سے زکوٰۃ ادا ہوگی، اور اگر کسی وجہ سے قیمت اس کی گھٹ گئی مثلاً کپڑا ناواقفی سے گراں ملا، یا سلوانے میں بگڑگیا، تو بہ قدر ۔َگھٹنے کے اور زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ ۹۔ ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے آدمی دیکھتے ہیں کہ ہم کو پانچ روپیہ زکوٰۃ کے دینے ہیں، اور فلاں غریب آدمی کے ذ۔ّمہ کسی سبب سے ہمارا قرضہ بھی پانچ روپے ہیں، لاؤ اس کو زکوٰۃ کی نیت سے معاف کردیں۔ سویاد رکھا جائے کہ اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، کیوںکہ زکوٰۃ میں تملیکِ کامل شرط ہے، اور ابرا من وجہ ٍاسقاط اور من وجہ ٍتملیک ہے، اس لیے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ البتہ ایک تدبیر اور جائز ہے، وہ یہ کہ اوّل یہ پانچ روپیہ اس شخص کو بہ نیت زکوٰۃ دے دے، جب وہ اس روپے کا مالک وقابض ہوجائے، اس سے اپنا قرضہ مانگے، اور اگر وہ نہ دے تو جبراً چھین لینا بھی جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں۔اِیقاظ ۱۔ اگر کوئی پہلے زکوٰۃ دینے کا خوگر نہ ہو، اوراب توفیق ہو تو گزشتہ زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، البتہ اگر درمیان میں بدون تلف کیے ہوئے مال خود تلف ہوکر نصاب سے کم رہ گیا ہو تو اس وقت کی زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔