اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
موقع کا رشتہ نہ ملنے کے عذر کے تین الزامی جوابات : اور تین الزامی جواب بھی اُن کے جواب میں قابلِ احتجاج ہیں: ایک یہ کہ جن صفات کو جس درجے میں تم دوسروں میں ڈھونڈتے ہو، تم کو جس شخص نے لڑکی دی تھی جس کی بدولت آج اپنی لڑکی کے باپ بن کر یہ ۔َجولانیاں دکھارہے ہو، کیا اس شخص نے بھی تمہارے لیے ایسی ہی تفتیش وکاوِش (تحقیق و جستجو) کی تھی؟ اگر وہ ایساکرتا تو تم کو عورت ہی میسر نہ ہوتی، اور ان باتوں کے بنانے کا موقع ہی نہ ملتا، غرض اس نے ایسانہیںکیا، تو اس نے جب ایسانہ کیاتو تم نے یا تمہارے باپ نے دوسرے بھائی مسلمانوں کی بدخواہی کیوںکی؟ کہ باوجود تمہارے اندر ان اوصاف کے علی سبیل الکمال (مکمل طور پر) مجتمع نہ ہونے کے اس کی لڑکی پر نکاحی قبضہ کرلیا، ’’آںچہ برخود نہ پسندی بردیگراں مہ پسند‘‘ (جو چیز تم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیوں پسند کرتے ہو) پر عمل کیوں نہیں کیا؟ دوسرا اِلزامی جواب یہ ہے کہ جب تم اپنی دُختر کے لیے ان صفات کا شوہر تلاش کرتے ہو، انصاف کرو! تم نے جب اپنے فرزند کے لیے کسی کی لڑکی کی درخواست کی تھی یا کرنے کا خیال ہی کیا، اپنے صاحب زادے میں بھی یہ صفات اسی درجے کی دیکھ لی ہیں یا دیکھنے کا ارادہ ہے؟ افسوس! ’’آںچہ برخود نہ پسندی بردیگراں مہ پسند‘‘ کے مقولے کا یہاں بھی خون کیا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ جس طرح لڑکوں میں بے شمار خوبیاں ڈھونڈی جاتی ہیں ، اگر دوسرا شخص تمہاری لڑکیوں میں اُس سے ۔ُعشر (دسواںحصہ) خوبیاں اور ہنر بھی دیکھنے لگے تو میں یقین کرتاہوں کہ تمام عمر ایک لڑکی بھی بیاہی نہ جائے، یہاں بھی وہی ’’آںچہ برخود نہ پسندی بر دیگراں مہ پسند‘‘ کا اہمال (چھوڑدینا) لازم آتاہے۔ غرض یہ عذر کہ رشتہ موقع کا نہیں آتا، اکثر احوال میں بے موقع ہے۔ یہ تو بیان تھا عورتوں کے حق میں شادی کے باب میں عملاً تنگی کرنے کا۔اعتقاداً بیوہ کے نکاحِ ثانی کو معیوب سمجھنا جہالت ہے : اور اعتقاداً تنگی کرنا اور اہتمام نہ کرنا ایسا کہ جیسے اکثر لوگ بہ وجہ اِفراطِ جہل (بہ سبب کثرتِ ۔ُجہل) کے بیوہ کے نکاحِ ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں، بعض جگہ تو یہاں تک غضب سنا ہے کہ منگنی ہونے کے بعد اگر لڑکا مرگیا تو پھر لڑکی کو تمام عمر بٹھلائے رکھا، اور یہ تو بہ کثرت ہے کہ بعد شادی کے بچپن میں یاجوانی میں بیوہ ہوگئی، بس اب اس کی شادی کرنا گویا بڑا گناہ سمجھا جاتاہے، بعض لوگ اگرچہ بہ وجہ جابہ جا علمِ دین اور وعظ کے چرچوں کے اب اس درجے کا عیب نہیں سمجھتے، مگر تاہم جس طرح اس لڑکی کی پہلی شادی کی فکر تھی، دوسری شادی