اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرنہیں کی جتنا اس کی قدر کا حق تھا۔حفظِ قرآن سے قوتِ حافظہ بڑھتی ہے اور علومِ معاشیہ میں کام دیتی ہے : یہ حضرات غور فرمائیں کہ حفظ کرنے میں اگر اعتدال کے ساتھ مشقت ہو تو اس میں دماغ کازیادہ کام نہیں، زیادہ کام ذہانت کا ہے، جیساکہ ایک ڈاکٹر نے بھی بیان کیا، البتہ کسی قدر اشتراک قوتِ حافظہ کاہے، جوکہ قویٰ دِماغیہ سے ہے، سو حکماء نے اس کی تصریح کی ہے کہ جس ۔قوت سے اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے تو وہ اس کی ریاضت ہے، اور اس ریاضت سے اس قوت میں ترقی ہوتی ہے، سو اس بنا پر تو حفظِ قرآن سے قوتِ حافظہ بڑھے گی جو آگے علومِ معاشیہ میںکام دے گی، اور اس حافظے کے بڑھ جانے سے دوسرے علوم میں دوسرا شخص جو کام چھ ماہ میں کرسکتاہے، یہ شخص اتنا کام چارماہ میںکرسکے گا، سو حفظِ قرآن میں اتنی ۔ّمدت بھی صَرف نہ ہوگی جتنی کفایت آگے نکل آئے گی۔ البتہ جس کو حفظ سے مناسبت ہی نہ ہو ، اس کا ذکر نہیں ہے، ایسے شخص کے لیے حفظ کرانے کا ہم بھی مشورہ نہیں دیتے۔ یہ عذر تو سب سے زیادہ عجیب ہے کہ قرآن کی بے حرمتی ہوتی ہے، کیا یہ حضرات خدا کو مافی الضمیر پر حاضر و ناظر اعتقاد اور خیال کرکے اس پر قسم کھاسکتے ہیں کہ بچوںکو قرآن نہ پڑھانے کی رائے اس نیت پر مبنی ہے کہ قرآن کی بے حرمتی نہ ہو؟ کیا خدا سے بھی اپنے اس مخفی حیلے کو چھپاسکتے ہیں؟ اگر یہی نیت تھی تو اچھا ہوش وعقل آنے کے بعد کتنے صاحبوں نے تحصیلِ قرآن کی طرف توجہ کی؟ بہرحال اس گروہ کی حالت پہلے گروہ سے زیادہ خطرناک ہے، اور پڑھنے کا اہتمام نہ کرنا دونوں میں مشترک ہے، پس ایک کوتاہی تو یہ کی جاتی ہے۔ دوسری کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ بہت لوگ پڑھتے پڑھاتے ہیں، مگر پڑھ کر پھر اس کانام تک نہیں لیتے بلکہ ان میں جو حافظ ہیں وہ فخر کرتے ہیںکہ ہم نے سال بھر تک کھول کر بھی نہیں دیکھا باوجود اس کے ہم نے رمضان میں سنادیا، اس ناواقفی کی بھی کوئی حد ہے کہ جوبات عیب کی تھی اس کو ہنر سمجھ کر اس پر فخر کیاجاتاہے؟جس چیز کا انسان ارادہ کرلیتاہے کسی نہ کسی صورت میں اس کو کرہی لیتا ہے : ان صاحبوں کو سمجھنا چاہیے کہ مقصودپڑھنے سے تویہ تھا کہ ہمیشہ اس کی تلاوت سے برکات حاصل کی جائیں، جب یہ نہ ہوا تو پڑھا نہ پڑھا برابر ہوگیا، پھر تجربے سے معلوم ہواہے اور ایک حدیث میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ قرآنِ مجید نہ پڑھنے سے اس سے ایسی بے مناسبتی