اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اوّل کا علاج علم وواقفیت ہے، جس کا طریقِ سہل یہ ہے کہ نماز کے متعلق جو صورتیں پیش آجائیں یا جو جو احتمال ذہن میں آتے رہیں، ان سب کو حافظے میں یا کتابت میں مقیّد ومحفوظ کرکے زبانی یا بہ ذریعۂ خط ۔ُعلمائے ماہرین سے پوچھتے رہیں۔ دوسرے کا علاج یہ ہے کہ دل میں وعیدیں مخالفتِ احکام کی سوچیں تاکہ ان احکام کی عظمت پیدا ہو، جب عظمت پیدا ہوگی تو ضرور اس کی کوشش وارادہ کرے گا، جب کوشش وارادہ کرے گا خود ان عذروں کا لغو ہونا سمجھ میں آجائے گا۔ کیا کسی تقریب میں جانے کے وقت یا کسی ۔ّمعزز مہمان کے آنے کے وقت جب کہ بدن اور کپڑے میلے ہوں یہی شخص جو ادنیٰ بہانے سے تیمم کرتا ہے، غسل کرکے کپڑے بدلتا ہوا نہیں دیکھا جاتا؟ کیا ایسے ہی موقع پر اگر دیر تک کھڑا ہونا پڑے، بلکہ چلنے کی ضرورت ہو تو کیا اس کو آسان نہیں ہوجاتا؟ مگر نماز میں کھڑا نہیں ہوا جاتا، کیا ریل میں اپنی آسایش کی ضرورت سے یا اپنے کسی مریض رشتہ دار کے آرام دینے کے لیے مسافروں سے جگہ دینے کی اس نے کبھی درخواست نہیں کی؟ تو نماز کے لیے مہر ِسکوت منہ پر کیوں لگائی جاتی ہے؟نماز کا اثر اور برکت : بلکہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ نماز میں وہ اثر اور برکت ہے کہ جب نماز کے لیے جگہ دینے کی درخواست کی جاتی ہے تو شواذ تو ہر جگہ مستثنیٰ ہوتے ہیں اورشمار میں نہیں آتے، باقی کہیں نہیں دیکھا کہ کسی نے ذرا بھی عذر کیا ہو، مخالف مذہب والے تک رعایت کرتے ہیں، مگرخود ہی کوئی کچا اور کم ۔ّہمت ہو تو کیا علاج؟ ورنہ ریل میں اچھے خاصے کھڑے ہوکر رُکوع و سجدہ کے ساتھ رُخ کی طرف نماز ہوتی ہے، اور اگر کبھی موقع پر واقعی عذر ہو تو وہاں شریعت نے تنگ نہیں کیا، رُخص پر عمل جائز ہے۔ اور بعضے عذر بالخصوص مستورات کے جو عذر مذکور ہوئے مسائل جاننے سے رفع ہوجائیں گے۔ ان ہی میں سے ایک عذر پردہ کا ہے کہ بہلی سے اُتر کر نماز پڑھنے میں بے پردگی ہے تو اس کے متعلق حکمِ شرعی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے وقت میں صرف برقع کا پردہ کافی ہے، بہلی کے احاطے میں رہنا ضروری نہیں۔ اور حجاج کا نماز ترک کرنا اگر اَحکام کی عظمت نہ ہو نے سے ہے تو اس کا علاج ابھی مذکور ہوا کہ وعیدیں مخالفتِ احکام کی سوچے اور اگر جہاز میں پاکی کا اہتمام نہ ہونا اس کا سبب ہے تو اس کے متعلق اوّل کی کوتاہی کے ضمن میں جہاں بیماروں کا نماز چھوڑدینا بہ خیالِ نجاست بدون پارچہ کے مذکور ہے بیان کیا گیا ہے۔ اور اگر یہ حج نفل ہے اور کسی سبب سے اہتمام نماز کا نہ ہوسکے تو اس شخص کو اس حج کے لیے سفر کرنا ہی جائز نہیں، وہ اپنے گھر رہ کر کام میں لگے، وعلی مثلہ نحمل ما قال العارف مسعود بک ؒ :