اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہوتے ہیں اُن کا استعمال کرنا کسی کو جائز نہیں، گو ان کا چڑھانا گناہ ہوا۔بعض دفعہ شرک ظاہر نہیں ہوتا بلکہ مدفون ہوتاہے : اور بعض لفظاً تو اللہ ہی کے لیے نذر کرتے ہیں لیکن اس کے تحت میں شرک مدفون ہوتا ہے کہ ذرا التفات و تأمل سے کام لیا جائے تو اس کا ادراک ہوتاہے، مثلاً: نذر کی کہ ’’اے اللہ! اگر میرا فلاں کام ہوجائے تو آپ کے نام کی ایک دیگ کھانے کی پکوا کر کھلاکر بڑے پیر صاحب کو ثواب بخشوں گا۔‘‘ اور یہ نہایت ہی احتیاط کا صیغہ سمجھا جاتاہے، تو یہ ظاہر میں تو نذر اللہ کے لیے ہے، لیکن یہ یقینی ہے کہ یہ لوگ اس مقصد میں ضرور ان بزرگ کو کسی قدر معین اور دخیل اور ۔ّمتصرف سمجھتے ہیں، چناںچہ اگر ان سے کہا جائے کہ ان بزرگ کو دوسرے وقت ثواب پہنچا دینا، اس وقت اسے منضم مت کرو، خالی نفعِ مساکین کی نیت رکھو تو ان کے دل میںضرور یہ خطرہ قریب مرتبہ اعتقاد گزرے گا کہ اس کے منضم نہ کرنے سے اس نذر میں اثر ضعیف ہوجائے گا، جس کا سبب ان بزرگ سے رُوحانی امداد کا پہنچنا ہے۔ پس ہر مسلمان اس پر غور کرکے دیکھ لے کہ یہ خلافِ توحید ہے یانہیں؟ اور اس کا ایک امتحان ہے، وہ یہ کہ اگر وہ کام ہوجانے کے بعد اس ناذر سے کہا جائے کہ صرف اللہ کے نام مساکین کو دے دو اور کسی کو ثواب مت پہنچاؤ، یا جن کے ثواب پہنچانے کی نیت کی ہے ان کو نہ پہنچاؤ، اور کسی بزرگ کو بخش دو کیوںکہ نذر میں ایسی تحقیقات شرعاً لازم ومعتبر نہیں ہوتیں، (جیسا آگے بھی آتاہے) تو اس وقت نذر کرنے والوں کی حالت دیکھنے کے قابل ہے کہ اس کو گوارا کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر گوارا نہ کیا تو سمجھ لیجیے کہ اعتقاد میں خلل ہے، اس کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ اگر عقیدے میں بھی فساد محسوس نہ ہو تب بھی حاجت کے لیے نذر کرنے کے وقت ہرگز کسی بزرگ کے ایصالِ ثواب کو منضم نہ کیا کریں، اس کو دوسرے وقت بلا نذر ثواب بخش دیا کریں۔اغنیا کو دینے سے منت پوری نہیں ہوتی : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے لوگ نذر کے ۔َمصرف میں اغنیا اور ہر مستحقین کو بھی شامل سمجھتے ہیں، چناںچہ دیکھا جاتاہے کہ قبول کی ہوئی شیرینی مسجد میں لاکر سب نمازیوں کو تقسیم کرتے ہیں، جن میں اغنیا اور ناذر کے اُصول و فروع بھی ہوتے ہیں جن کو دینے سے نذر ادا نہیں ہوتی۔ (ردّ المحتار قبیل باب الاعتکاف) بلکہ جس قدر ان لوگوں کے حصے میں آیا ہے اسی قدر دوبارہ مساکین کو دینا واجب ہوگا، البتہ نذر ہی کرنے کے وقت یہ کہہ