اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اگر کسی کی کچھ نمازیں یا روزے رہ گئے ہوں جو اپنی زندگی میں ادا نہ کرسکے تو مرتے وقت فدیے کی وصیت کرنا ضروری ہے : مثلاً :ایک کوتاہی یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے ذ۔ّمے بہت سی نمازیں اور روزے چڑھے ہوئے ہیں، مگر مرنے کے وقت بھی فدیے کی وصیت نہیں کرتے، حالاںکہ ایسے شخص کو فدیے کی وصیت کرنا واجب ہے، لوجوب الفدیۃ عن الصوم نصّا وعن الصلاۃ قیاسًا۔ مقدار ایک روزہ اور ایک نماز کی فدیہ کے برابر صدقۂ فطر کی ہے، خواہ غلہ یا قیمت یا ایک مسکین کو دو وقت کھانا کھلادینا اور نمازیں ایک دن کی پانچ فرض اور ایک وتر کل چھ ہیں۔فدیے کے بھروسے پر نمازیں اور روزے قضا نہیں کرنے چاہییں : اس کے مقابل ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے آدمی فدیے کے بھروسے اپنے اُوپر نمازیں اور روزے چڑھاتے چلے جاتے ہیں کہ ہم مال دار ہیں، فدیے کی وصیت کرجائیں گے، تو اس میں ایک بڑی بے باکی ہے کہ گویا نماز روزہ اس کے نزدیک قابلِ اہتمام ہی نہیں، خصوصاً مال داروں سے گویا اس کا جرمانہ لے کر ان کو سبک دوش کردیا گیا ہے۔ (نعوذ باللّٰہ من ذلک) دوسرے چوںکہ نمازوں کا بہت عدد بڑھ جاتاہے، اور اس لیے اس کا مجموعہ فدیہ اکثروں کی وسعت سے متجاوز ہوجاتاہے، تو اگر ۔ُکل ادا کیا گیا تو وارثوں کو ضرر پہنچا یا گیا، اور اگر ۔ُکل ادا نہ ہوا تو ا س کے ذ۔ّمے بار رہا، اور یہ دونوں اَمر غیر مشروع ہیں۔ اور اسی فدیے کے بھروسے پر رہنے کے متعلق اس زمانے میںنئی غلطی مگر بہت گندی غلطی یہ ایجاد کی گئی ہے کہ روزہ قضا ہوجائے تو باوجود صحتِ بدن کے بھی اس کی طرف سے فدیہ دے دینا کافی ہے، روزہ رکھنا فرض نہیں، (اس کا بطلان اچھی طرح سے احقر نے رسالہ اصلاح ترجمہ دہلویہ کے متن میں مختصراً اور اس کے خاتمہ بہ عبارت عربیہ مبسوطاً اور عزیزم مولوی شبیر احمد صاحب سلّمہ دیوبندی نے ’’القاسم‘‘ کے نمبر ۴ جلد میں عقلاً و نقلاًثابت کردیا ہے، ملاحظہ فرمایے۔)قدرت یا اُمیدِ قدرت کے ہوتے ہوئے فدیہ دینا درست نہیں ہوتا : ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے لوگ باوجود اس کے کہ وہ نمازیں قضا کرسکتے ہیں اور صحت سے بھی مایوس نہیں ہوئے اور صحت کے بعد روزے قضا کرسکتے ہیں مگر پھر بھی