اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس صورت میں ایسی نوکری ہی جائز نہیں، خدا تعالیٰ دوسرا سامان رزق کا کردے گا، ایسی نوکری چھوڑ دینی چاہیے۔ البتہ جس شخص کے پاس بظاہر سرِدست کوئی سبیل ضروری معاش کی بھی نہ ہو، نہ نوکری میں، نہ سرمایہ ہو کہ تجارت کرے، نہ مزدوری کی عادت ہو اور بدونِ عادت چلنا دشوار ہوتا ہے تو ایسی حالت میں نوکری چھوڑنے میں تعجیل نہ کرے، اس فکر میںلگا رہے، دوسرے خیر خواہوں سے بھی سعی کرائے اور تا حصول کسی سبیل کے ہمیشہ اس بلائے اختلال وقتِ صلاۃِ سے استغفار اور دعائے استخلاص اور دوسری سبیل کے استحصال کی کرتا رہے۔ اور جن کو برائے نام بھی مجبوری نہیں، محض بے کار وقت ضائع کرتے ہیں، ان کو اپنی حالت پر خاص طور پر نظر کرنا چاہیے اور نفس سے محاسبہ کرنا چاہیے کہ جب پانچوں وقت نماز پڑھنا پڑے تو تاخیرِ اوقات سے کون سی آسانی وتخفیف نکلی اور مجبوری کچھ نہیں ہے، تو نہ کوئی مصلحت تھی کہ تاخیر کے اختیار کرنے کا مرجح ہو، نہ کوئی مجبوری تھی کہ تاخیر بالاضطرار کا سبب ہو، پھر وبال لینے سے کیا حاصل ہوا؟ اگر نفس یہ کہے کہ تاخیر کرنے سے مشغلۂ تفریح کا وقت زیادہ مل سکتا ہے، تو اس کو جواب دینا کہ اگر دو نمازیں اوّل وقت میں پڑھی جائیں تب بھی ان کے مابین اتنی ہی گنجایش ہوگی جتنی ان دونوں نمازوں کو اخیر وقت پر پڑھنے سے ملتی ہے۔ مثلا: اگر کسی نے ظہر چار بجے پڑھی اور عصر سات بجے تو درمیان میں تین گھنٹے ملے سو اگر ظہر دو بجے پڑھتا اور عصر پانچ بجے تب بھی درمیان میں تین گھنٹے ملتے، تو جتنا کام درمیان میں تاخیر کی صورت میں کرسکتا ہے، اُتنا ہی تعجیل کی صورت میں کرسکتا ہے، پھر تاخیر میں بجز ۔ّمضرت کے کون سی مصلحت ہوئی؟تضلیلِ شیطانی : اور ایسے مشایخ کو اوّلاً تو تضلیلِ شیطانی اور کبھی تسویلِ نفسانی اس تاخیر کا سبب ہوتی ہے۔ تضلیلِ شیطانی اس طرح کہ انھوں نے اپنی تجویز سے یا اپنے شیخ کی تعلیم سے کوئی معمول یا وِرد ایک خاص مقدار سے ۔ّمقررو ملتزم کرلیا اور اس میں وقت کی تعیین محض کسی مصلحتِ زائدہ غیر ضروریہ کے سبب سے تھی، مگر بروئے غلو اس عاملِ ملتزم نے اس کو ایسا ضروری سمجھا کہ اس کی حفاظت کے لیے مہماتِ دینیہ کی بھی پروا نہ رہی۔ مثلاً: بعض اوراد مابین سنت وفرض فجر کے پڑھے جاتے ہیں۔ میں نے بعض ۔ّمتشددین و مصرین کو دیکھا ہے، جماعت کھڑی ہوگئی، مگر وہ اپنے وِرد میں مشغول ہیں، حتیٰ کہ جماعت فوت کردی اور بعض اوقات خود وقت بھی تنگ ہوگیا، مگر اس وِرد کی ترتیب میں تغیر و تبدیل کو ہرگز جائز نہ رکھیں گے، حالاں کہ یہ تغیر فی نفسہٖ جائز تھا اور جب عدمِ تغیر سے جماعت فوت ہو کلاً یا بعضاً یا وقت تنگ ہوجائے، اس وقت تغیر واجب تھا، مگر ان کو ترکِ واجب کی ذرا پروا نہیں، پھر اپنے