اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہیں، اور پھر اُن کی نظر سے یہ واقعہ کیسے مخفی رہا کہ ہر قسم کے مواقع پیش آتے ہیں جن کے لیے کوئی ایک کلیہ کافی نہیں ہوسکتا، اس کے لیے پورے قانون کی ضرورت ہے، جو قانونِ شرعیہ سے زیادہ جامع اور۔ُمراعیٔ مصالح (مصلحتوں کی رعایت کرنے والا) کوئی نہیں ہوسکتا، چناںچہ خود جن کی یہ لوگ تقلید کررہے ہیں یعنی اہلِ یورپ وہ خود روزانہ اس قانونِ شرعی کے استحسان کا اعتراف کرتے جاتے ہیں، پھر اُن کی نظر سے یہ فطرت کیسے مخفی رہی جس کو اللہ تعالیٰ نے سلیم المزاج طبقۂ اناث(صحیح مزاج والی عورتوں کے طبقے) میں ودیعت کر ر کھا ہے، کہ حیا اُن کے لب پر مہرِسکوت لگائے ہوئے ہے۔عورتوں میں فطری طور پر ایک حیا کی شان پائی جاتی ہے : افسوس! ان صاحبوں نے اس امرِ فطری کی ذرا رعایت نہیں کی، اور اگر ان کی نظر میں کوئی ایسی جماعت ہو جس میں یہ اَمرِ فطری نہیں پایا جاتا، اور اس وجہ سے اس کے فطری ہونے میں شبہ ہوجائے تو جواب یہ ہے کہ علامت فطری ہونے کی یہ ہوتی ہے کہ عوارض مرتفع ہوں، وہاں اس کا ظہور ہو، سو اس معیار پر اگر تحقیق کیا جائے گا تو اناث میں اس سکوت کا فطری ہونا ثابت ہوگا۔ایسا خاص طرزِ تعلیم جس سے عورتوں میں حیا کا نام و نشان باقی نہ رہے ان کے واسطے سخت مضر ہے : سبب اس کا خاص طرز ہے تعلیم کا جو خود ہی اناث کے لیے نامناسب ہے، ورنہ ادنیٰ درجے کے لوگوں تک میں کہ جس میں نہ علم ہے، نہ پردہ ہے، ایک شان حیا کی پائی جاتی ہے۔شریعتِ ۔ّمقدسہ نے تمام روئے زمین کے انسانوں کے جذبات کی رعایت فرمائی ہے : قربان جائیے شریعتِ ۔ّمقدسہ کے کہ تمام روئے زمین کے اصلی جذبات تک کی رعایت اَحکام میں فرمائی ہے، ان اہلِ غلو میں سے بعض کی میں نے یہ حکایت سنی ہے کہ انھوں نے اپنی نا کتخدا (کنواری) لڑکی کے نکاح کے وقت علیٰ رؤس الاشہاد (گواہوں کی موجودگی میں) اس سے پوچھا کہ ’’فلاں شخص سے تمہارا نکاح کیا جاتاہے، تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ وہ خاموش رہی، اس پر جبر کیاکہ ’’مارڈالوں گا، ورنہ رائے ظاہر کرو۔‘‘ مجبوراً بے چاری کو کہنا پڑا کہ ’’ہاں میری مرضی ہے۔‘‘ سبحان اللہ! کیا خوب صورتی1 سے رائے لی ہے، ان سے کوئی پوچھے کہ ’’کیوں صاحب!