اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شب میں بھی نکلنا جائز ہے، لیکن زیادہ حصہ رات کا اپنے گھر میں گزارنا واجب ہے، پس فرق دونوں میں اسی ضرورت معاش وعدمِ ضرورت سے ہوا، سو اگر کوئی ۔ّمعتدۃ الوفات ہی معاش سے مستغنی ہو( یعنی محتاج نہ ہو) تو اس کا نکلنا جائز نہ ہوگا۔ (درمختار عن الفتح)عدت کی مدت گزرنے کے بعد کوئی پابندی نہیں : ایک غلطی یہ ہے کہ بعضے خصوصاً عورتیں یوں سمجھتی ہیں کہ عدّت گزرنے کے بعد عدّت سے نکلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اِس گھر سے دوسرے گھر جائے، اور اس کا بڑا اہتمام کیا جاتاہے۔ سو یہ بالکل غلط ہے، جب وہ مد۔ّت گزر گئی، پس عورت عدّت سے نکل گئی، گو اسی گھر میں رہے۔مطلقہ کو حقیر سمجھنا صحیح نہیں : ایک غلطی جس کو ایک رسمِ جاہلیت کہنا بجا ہے، یہ ہے کہ مطلّقہ کو مطلقاً (بالکل) حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں اور گو زیادتی شوہر ہی کی ہو، مگر بلا وجہ یہ حکم لگاتے ہیں کہ ’’اس نے کچھ تو عیب کیا ہوگا، تب تو اس کو طلاق ہوئی۔‘‘ اورپھر اس عیب کو بھی ۔ّعفت (پاک دامنی) ہی کے متعلق سمجھ لیتے ہیں اور اس بنا پر حتی الامکان اس سے نکاح نہیں کرتے، سو ظاہر بات ہے کہ جب واقعات دونوں طرح کے ہیں، کہیں عورت کی زیادتی ہوتی ہے، کہیں مرد کی، پھر یہ کیسے سمجھ لیا کہ عورت ہی خطا وار ہے؟ اور اگر خطا وار ہے تویہ کیا ضرور ہے کہ یہ خطا ۔ّعفت ہی کے متعلق ہے؟ ایسے قرائن پر کسی پر شبہ کرنا سخت گناہ اور حرام ہے۔بلا تحقیق محض وقوعِ طلاق سے شوہر یا بیوی پر کوئی حکم لگانا گناہ ہے : ایک غلطی اس کے مقابلے میں کہ وہ بھی رسمِ جاہلیت ہی ہے، یہ ہے کہ بعضے لوگ طلاق دینے والے کو بلا دلیل ظالم قرار دے لیتے ہیں اور اسی بنا پر پھر اس کا نکاح دشوار ہوجاتاہے۔ سو یہ بھی پہلے کی طرح رجم بالغیب (اٹکل پچو) ہے، کہیں کہیں عورتیں سرکشی ونافرمانی وایذا رسانی کرتی ہیں، تو اس صورت میں مرد بجز طلاق کے کیا کرے؟ حاصل یہ کہ محض وقوع طلاق سے بلا تحقیق نہ شوہر پر الزام لگاوے، نہ عورت پر، بلکہ جن لوگوں کا اس قصے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کو تو اس سے تعرض ہی کی ضرورت نہیں، اور جن کا کچھ ضروری تعلق ہے وہ بھی بدون تحقیق کے کوئی حکم نہ لگائیں، کہ بدون دلیلِ شرعی کوئی حکم لگا