اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوجاتی ہے کہ پھر دیکھ کر بھی نہیں چلتا، یہ تو ناظرہ خواں کے بھولنے کی حد ہے، اور حافظ کے بھولنے کی حد یہ ہے کہ حفظ نہ پڑھ سکے، صحیح یہی ہے اور نسیانِ قرآن پر حدیثوں میں وعیدِ شدید آئی ہے، پھر یہ کہ اتنے دنوں کی، کی کرائی محنت جوکہ پڑھنے میں برداشت کی تھی، اس کے ضایع کردینے کے لیے دل کیسے گوارا کرتاہے؟ دوامِ تلاوت میں بعض لوگ کم فرصتی کا عذر کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ جس چیز کا انسان ارادہ کرلیتاہے کسی نہ کسی صورت میں اس کو کر ہی لیتا ہے، خاص کر جب کہ کام بھی آسان ہو، کیا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے کہ ۲۴ گھنٹوں میں سے آدھا گھنٹہ کہ مجموعہ روز و شب کے ساتھ ۱؍۴۸ کی نسبت رکھتا ہے ، نکال کر اس میں اگر ناظرہ خواں ہے تو ایک پارہ اور اگر حافظ ہے تو ایک یا ڈیڑھ پارہ بے تکلف پڑھ لیا کرے، اور اتفاقاً ناغہ ہوجانا دوسری بات ہے، اس سے زیادہ وقت تو فضولیات و خرافات میں ۔َصرف ہوجاتاہے جس میں نہ نفعِ دین، نہ نفعِ دنیا۔ کیا تو بہ توبہ قرآنِ مجید کی ان فضولیات کے برابر بھی وقعت نہیں ہے کہ فضولیات کے لیے تو فرصت ہوجایا کرے اور قرآنِ مجید کے لیے نہیں ہوتی؟ تیسری کوتاہی یہ ہے کہ بعض دواماً بھی پڑھتے ہیں مگر اس کی تصحیح کی طرف اصلاً توجہ نہیں فرماتے، نہ مخارج کی خبر، نہ صفات کا اہتمام ، نہ نقص وزیادت سے تحاشی۔ کوئی صاحب ’’ض‘‘ کو صاف مخرج ’’ظ‘‘ سے ادا کرتے ہیں اور کوئی صاحب مخرج ’’د‘‘ سے، ’’ث، س، ص‘‘ میں ان کے نزدیک کوئی فرق ہی نہیں، ’’الف‘‘ کے موقع پر نرا فتح پڑھنا اور فتح کی جگہ ’’الف‘‘ ملادینا بعض کی عادت ہوگئی ہے، نہ بے موقع وقف کردینے سے اجتناب کیاجاتاہے، حالاںکہ اس سے بعض مواقع پر معنی میں فساد ہوجاتاہے، اگر سانس ٹوٹنے سے اس کی طرف مضطرہوتو ایسا کرے کہ جس لفظ پر وقف کیا ہے، اس کا پھر آگے پڑھنے میں اعادہ کرے، البتہ وصل سے ایسا فساد لازم نہیں آتا۔اہلِ علم کی کوتاہیاں : نہایت افسوس سے کہاجاتاہے کہ اس کوتاہی میں اہلِ علم کا نمبر غیر اہلِ علم سے کچھ بڑھا ہوا ہے، حتیٰ کہ ایک صاحب سورئہ ناس میں {مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِO} کو اس طرح پڑھتے ہیں: مِنَ الْجِنَّاتِ وَالنَّسِ پھر بعضے ان میں مساجد کے امام ہوتے ہیں ، اس وقت اس غلطی کا اثر دوسروں تک بھی دوطور سے پہنچتاہے: ایک یہ کہ اگر کوئی مقتدی صحیح خواں ہوا، تو ان کی نماز ان امام صاحب کے پیچھے نہیں ہوتی، اور چوںکہ غلط خواںکاحکم صحیح خواںکی نسبت سے اُمی کا سا ہے بہ نسبت قاری کے، اس لیے اس خاص صورت میں یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ نہ امام کی نماز