اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اصلاحِ معاملہ متعلقہ بہ کفاء ت شرع نے کفاء ت (برابری) میں چند اوصاف کا اعتبار کیا ہے، جن میں ایک نسب بھی ہے، اس کے متعلق خاص ہندوستان میں چند کوتاہیاں ہوتی ہیں۔کفاء تِ نسب میں ماں کا کچھ اعتبار نہیں : ایک کوتاہی یہ ہے کہ نسب میں ماں کا بھی اعتبار کرتے ہیں، یعنی اگر ماں کسی کی نجیب (شریف) نہ ہو تو اس کو نجیب نہیں سمجھتے، اور اس لیے اس کو اپنا ہم سر نہیں جانتے، حالاں کہ شریعت نے کفاء تِ نسب کے باب میں ماں کا کچھ اعتبار نہیں کیا، اسی طرح دوسرے احکامِ نسبیّہ میں بھی ماں کا اعتبار نہیں کیا، مثلاً: ایک شخص کی ماں صرف بنی ہاشم میں سے ہو اس کو زکوٰۃ حلال ہے، پس صرف نجیب الاب ہم سر ہے نجیب الطرفین کا۔ماں کی طرف سے سیادتِ نسبیّہ صرف حضرت فاطمہ ؓ اور اُن کی اولاد کے لیے ثابت ہے : البتہ اس کلیہ سے صرف ایک جزئیہ مستثنیٰ (ایک جز علیحدہ) ہے، وہ یہ کہ حضورﷺ کی سیادتِ نسبیّہ حضرت فاطمہ ؓ کے لیے بھی ثابت ہوکر آپ کی اولاد میں جو لوگ ہیں وہ بھی سیّد ہیں، اور افضل ہیں دوسرے بنی ہاشم سے، حتیٰ کہ جولوگ حضرت علی ؓ کی اولاد میں بھی ہوں مگر حضرت فاطمہ ؓ کے بطن سے نہ ہوں وہ سیّد نہ ہوں گے، بلکہ علوی ہوں گے، اور یہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض نسب ناموں میں علویوں کے ناموں کے ساتھ ’’سیّد‘‘ ملا ہوا ہے، یہ صحیح نہیں، اور علویوں کا دعویٔ سیادت محض غلط ہے، البتہ بنی ہاشم میں سے ہیں، اور بنی ہاشم کے جو فضائل ہیں وہ ضرور اُن کے لیے حاصل ہیں۔نسب میں فخر کی کوئی بات نہیں ہے : ایک کوتاہی یہ ہے کہ نسب پر فخر کرتے ہیں اور دوسروں