اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خود حدیث کے الفاظ تو اس زعم کا تخطیہ کررہے ہیں، اور لہجے کا اہتمام تجوید میں تفریط ہے۔ اور بعضے حقیقت صحیح سمجھتے ہیں مگر خوش لہجگی کے ایسے مخالف ہیں کہ اس کا اہتمامِ بلیغ کرتے ہیں کہ تحسین فوت نہ ہونے پائے اور کسی کو ذرا تحسینِ صوت کرتا دیکھتے ہیں تو اس پر گانے کا طعن کرتے ہیں اور یہ تجوید میں اِفراط ہے، مثل تفریطِ مذکور کے یہ بھی نصوص کے خلاف ہے۔حسنِ صوت اور گانے کا فرق : ’’زَیَّنُوْا القُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ‘‘ أو نحوہ حدیثِ قولی (قرآن شریف کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو) اور حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے اس عرض پر کہ ’’لَوْ عَلِمْتُ أَنَّکَ تَسْتَمِعُ لِقِرَائَ تِیْ لَکَ لَحَبَّرْتُہُ تَحْبِیْرًا‘‘ أَوْ نَحْوُہُ (اگرمیں جانتا کہ آپ میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں اس کو اور سنوارتا) آپ کاانکار نہ فرمانا حدیث تقریری اس تحسین صوت بالقصد کی مشروعیت ومطلوبیت میں نص صریح ہیں۔ اور یہی ہے وہ تغنی جس کا امر چند حدیثوں میں مروی ہے اور اس میں اور گانے میں فرق ظاہر ہے، یعنی گانے میں تو لہجہ مقصود اور دوسرے قواعد تابع ہیں، اگرلہجے کے بنانے میں قواعد رہ جاویں تو پروا نہیں کی جاتی اور تحسینِ صوت میں قواعد مقصود اور حسنِ صوت تابع ہے، یعنی اگر قواعد کومحفوظ رکھ کر خوش آوازی ہوسکے تو اس کی رعایت کی جاتی ہے، ورنہ اس کی پروا نہیں کی جاتی ہے۔ اور بلا قصد اگر کسی شخص کی قراء ت کا کوئی جزو کسی قاعدئہ موسیقی پر بھی طبیعت کے تناسب یاموزونیت کی وجہ سے منطبق ہوجائے تب بھی وہ گانے میں داخل نہیں، جیساکہ خود قرآن مجید میں شعریت کی جابہ جا نفی کی گئی ہے، مگر بعض عبارت یقینا اوزانِ شعر پرمنطبق ہیں۔ جیسے: {ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَO ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَائِ تَقْتُلُوْنَ}1 پھر تم نے اقرار کرلیا اور تم جانتے ہو، پھر تم وہ لوگ ہوکہ ویسے ہی خون کرتے ہو آپس میں۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلات پرمنطبق ہے، مگر باوجودِ انطباق ہرگز اس کے پڑھنے والے کو شعر کاپڑھنے والا نہ کہا جائے گا۔ البتہ اگر بہ قصدِ تطبیق پڑھے گا، شعر پڑھنے والا اور قرآن میں ایسا کرنے سے ناجائز فعل کا ارتکاب کرنے والا کہا جائے گا، بس یہی حالت لہجے کی بالقصد تطبیق کے ہے، غرض اس چوتھی کوتاہی کی دو جانبیں ہیں: تفریط، اِفراط، دونوں سے بچنا یہ وہ ہے جس کو لحون العرب وأصواتہا (عربوں کا طریقہ اور ان کی آوازیں) فرمایا گیا ہے۔