اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپﷺ نے دیکھ کر دو تین بار فرمایا: خبردار ہوجاؤ! عذابِ دوزخ ان ایڑیوں کے لیے ہے جو سوکھی رہ جاویں۔ اس حدیث سے تین حق شاگردوں کے ثابت ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ صرف ان کے تعلیمِ علوم ہی پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان کے اعمال واخلاق کی بھی حتی الامکان نگرانی رکھے، جس طرح حضورﷺ نے بعض لوگوں کے پاؤں کے خشک رہ جانے پر متنبہ فرمایا۔ اور یہ باب بالکل ہی مسدود ہوگیا ہے، اساتذہ صرف سبق پڑھادینے کو ضروری سمجھتے ہیں، تعلیم کے ساتھ تربیت کی طرف توجہ نہیں فرماتے، اور علمی غلطی پر متنبہ نہ کرنا تو اور بھی غضب ہے، کیوںکہ اس کاتو انھوں نے بالتصریح التزام کیا ہے جیسا بعض معلّمینِ قرآن کی عادت دیکھی گئی ہے کہ شاگرد پہلو میں بیٹھا ہوا غلط پڑھ رہا ہے اوریہ بہرے گونگے بنے بیٹھے ہیں، اور اس سے بدتر یہ ہے کہ بعضے اساتذہ شاگردوں سے ایسے کام لیتے ہیں کہ ان کے اخلاق اور تباہ ہوتے ہیں تو اگر اصلاح نہ کرے تو فساد تو نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی وجہ سے احتمال ہو کہ بدون آواز بلند کیے ہوئے آواز نہ پہنچے گی، مثلاً: حلقۂ درس بڑا ہے یا اور کوئی عارض ہے تو بلند آواز سے تقریر کرنا حق ہے شاگرد کا، ورنہ تقریر ہی بے کار ہے، دیکھئے! حضورﷺ نے کس طرح بآوازِ بلند فرمایا۔ تیسرے اگر احتمال ہو کہ ایک بار تقریر کرنے سے طلبہ نے نہ سمجھا ہوگا تو دوسری، تیسری بار بھی تقریر کردینا مناسب ہے، جس طرح حضورﷺ نے دو تین بار فرمایا۔ اور آیندہ حدیث میں حضورﷺ کی بھی عادت مستمرہ ہونا معلوم ہوتاہے۔ 8 عَنْ أَنَسٍؓ : أَنَّہُ کَانَ إِذَا تَکَلَّمَ بِکَلِمَۃٍ أَعَادَہَا ثَلَاثًا حَتّٰی تُفْہَمَ عَنْہُ۔ 2 جب رسول اللہﷺ کوئی بات مہتم بالشان فرماتے تھے تو تین مرتبہ فرماتے تھے کہ لوگ خوب سمجھ لیں۔ یہ حدیث فائدۂ ثالثہ مذکور حدیث ِسابق میں نص ہے۔کبھی کبھی شاگرد سے امتحان بھی لینا چاہیے : 9 عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ عُمَر ؓ : قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ :إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً لاَ یَسْقُطُ وَرَقُہَا، وَإِنَّہَا مَثَلُ المُسْلِمِ، فَحَدِّثُوْنِيْ مَا ہِيَ؟