اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
متصلہ (جو مسئلہ اس سے پہلے مذکور ہے) کی بنا پر یہ سمجھنا بھی محض غلط ہے، اس کے خلاف کرنے سے طلاق واقع نہ ہوگی۔ گو کسی کا خط بلا اِذن (بغیر اجازت) دیکھنا یا اسی طرح کسی چیز میں ۔ّتصرف بلا اجازت کرنا مستقل دلیل سے حرام ہے، مگر طلاق واقع ہونا اور بات ہے۔تعلیق میں محض نیت کافی نہیں : ایک غلطی دربابِ فیصلۂ باہمی زوجین متعلق طلاق و معافی ٔمہر (میاں بیوی کے درمیان طلاق اورمعافیٔ مہر کے بارے میں فیصلہ) کے یہ ہوتی ہے کہ بنا بر مصا لح(مصلحتوں کی بنا پر) یہ قرار داد (تجویز) ہوتی ہے کہ شوہر طلاق لکھ دے اور منکوحہ مہر کا معافی نامہ لکھ دے۔ اب اس کی ترتیب کے متعلق دو غلطیاں ہوتی ہیں:کبھی تو یہ ہوتا ہے کہ مرد نے پہلے طلاق نامہ لکھ دیا اور طلاق واقع ہوگئی، گو عورت کے حوالے نہ کیا گیا ہو، اب عورت نے مہر معاف کرنے سے انکار کردیا تو مرد کا نقصان ہوا۔ اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ عورت نے مہر کا معافی نامہ دیا اور مہر معاف ہوگیا، گو مرد کے حوالے نہ کیا گیا ہو، اب مرد طلاق دینے سے انکار کرتا ہے، تو اس میں عورت کا خسارہ ہوا، کیوںکہ مہر کی معافی میں بھی اور طلاق میں بھی نیت تعلیق کی ہے، مگر تعلیق میںمحض نیت کافی نہیں، لفظوں میں اس کی تصریح ضروری ہے، اس لیے اس کا ایسا طریقہ بتلایا جاتا ہے کہ دونوں کا مقصود حاصل ہوجائے اور کسی کو افسوس نہ ہو، وہ طریقہ یہ ہے کہ مرد جو طلاق نامہ لکھے تو اس طرح لکھے کہ ’’اگر عورت مجھ کومہر معاف کردے تو میری طرف سے اس کو طلاقِ بائن ہوجائے۔‘‘ اس کے بعد عورت نے اگر معافی نامہ مہر کا نہ لکھا تو عورت پر طلاق واقع نہیں ہوئی اور مرد خسارے سے بچا رہا اور اگر معافی نامہ لکھ دیا تو طلاق ہوگئی، مگر ایسے وقت میں کہ مہر بھی معاف ہوگیا، غرض دونوں میں سے کسی کو دھوکا نہ ہوا۔طلاق کے بارے میں اہلِ علم کا ایک مغالطہ : ایک غلطی بعض اہل علم کو یہ ہوجاتی ہے کہ ۔ُفقہا نے اِخْتَارِيْ (تجھے طلاق کا اختیار ہے) کو کنایاتِ طلاق (طلاق کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ) میں سے لکھا ہے، تو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لفظ بہ نیتِ طلاق کہہ دیا تو طلاقِ بائن ہوجاتی ہے، حالاںکہ یہ غلط ہے، اس لفظ سے یا اس کے ہم معنی مثل أَمْرُکِ بِیَدِکِ وغیرہ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے یا تیرے قبضے میں ہے) سے وقوعِ طلاق کی یہ بھی شرط ہے کہ اس کہنے کے بعد عورت اپنی طلاق کو اختیار کرلے، اس صورت میں یہ تفصیل ہے کہ اگر مرد نے اس لفظ کے کہنے میں نیت طلاق کی کی تھی تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں۔ اور اگر عورت خاموش رہی تو صرف مرد کے اِخْتَارِيْ