اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مَنًّا وَّلَآ اَذًیلا} الآیۃ۔ بعد تعمیم تفسیر قولہ: {وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَO} کما نقلہ البیضاوي وممّا رزقناہم من أنوار المعرفۃ یفیضون۔1 کی تکلیف دیتے ہیں، اور جو ہم نے ان کورزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ جیسا کہ نقل کیا اس کو بیضاوی نے: یعنی جو ہم نے انوارِ معرفت ان کو عطا کیے ہیں لوگوں پر ان کا فیضان کرتے ہیں۔طالبِ علم کے ساتھ بھلائی کرنے کے متعلق آں حضرتﷺ کی وصیت : 1 عَنْ أَبِيْ سَعِیْدِ الْخُدْرِيِّ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّ النَّاسَ لَکُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا یَأْتُوْنَکُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ یَتَفَقَّہُوْنَ فِي الدِّیْنِ، فَإِذَا أَتَوْکُمْ فَاسْتَوْصُوْا بِہِمْ خَیْرًا۔2 جنابِ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اور لوگ تمہارے تابع ہیں، تمہارے پاس دور دراز ملکوںسے لوگ علمِ دین سیکھنے اور سمجھنے کو آویں گے، ان کے بارے میں میری وصیت کے موافق بھلائی سے پیش آنا۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ جو شخص علمِ دین طلب کرنے کے لیے آوے اس کے حق میں جنابِ رسول اللہﷺ خیر کی اور حسنِ معاملہ کی وصیت فرماتے ہیں، گو ابھی تحصیل بھی شروع نہیں کی، اور بعد تحصیل کے تو اور بھی تعلقات وخصوصیات جوکہ مقتضیات زیادت وتاکید حقوق ہیں زائد ہوں گے۔ پس حقوق اور بھی کماً وکیفاً کثیر اور قوی ہوجائیں گے اور چوںکہ دوسرے نصوص سے صاحبِ افادہ کو تنگ کرنے کی ممانعت ثابت ہے، کما قال تعالٰی: {وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ} یعنی لکھنے والے اور گواہ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہیے۔ اس سے یہ بھی مفہوم ہوگیا کہ ۔ُطلبا کو بھی اپنی حوائجِ علمیہ وما یتعلق بہا کی درخواست معلمین اور مہتممین سے اسی درجے تک کرنی چاہیے کہ ان کو ۔ُکلفت نہ ہو، یہ ان کے ذ۔ّمے واجب نہیں کہ جتنے ۔ُطلبا آویں سب کے لیے طبق اور سبق کا انتظام ضرور ہی کردیا کریں، البتہ بہ شرطِ سہولت اس کا انتظام اورپھر بعد کام شروع کردینے کے ان کے مصالحِ علمیہ کی رعایت حسبِ حدیث ضروری ہے۔