اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یا زیادہ ہونے) کی گفتگو میں بے دھڑک(بلا جھجک) کہہ دیتے ہیں کہ ’’میاں! کون لیتا ہے، کون دیتاہے۔‘‘ خیر! یہ بھی ایک بات ہے، تو یہ لوگ اپنے اس اعتقاد کا صریح اقرار کرتے ہیں کہ مہر محض نام ہی کرنے کوہوتاہے، دینے لینے کو اس سے کوئی تعلق نہیں، سو اوّل تو فی نفسہٖ بھی یہ دعویٰ غلط اور باطل ہے، مہر بہ نصِ شارع حقِ واجب اور لازم ہے اور مثل دیگر دیون مفترض الاداء (دوسرے اُن قرضوں کی طرح ہے جن کی ادائیگی ہرحال میں ضروری ہوتی) ہے، جب تک کہ کوئی ۔ُمسقط (گرانے والا یعنی ختم کرنے والا) اس کا نہ پایا جائے، مثل اِبرا (معافی) یا اس کے جز یا کل کا زوج کو میراث میں پہنچ جانا یا طلاق قبل الدخول (ہم بستری سے پہلے طلاق) نصف مہر کے لیے، وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِنَ الْأَسْبَابِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِيْ کُتُبِ الْفِقْہِ (اور اسی طرح کے دوسرے اسباب جو کتبِ فقہ میں مذکور ہیں)۔ بہرحال وہ فی نفسہٖ (اپنی ذات میں) واجب الاداء ہے، دوسرے موقع پر خود یہ ۔ّمدعی (دعویٰ کرنے والے) ہی اپنے فعل سے اس قول کی تکذیب کرنے لگتے ہیں، یعنی جب اُن کی متعلقہ کا جب کہ وہ ۔ّمعلقہ یا ۔ّمطلقہ( ویسے ہی ترکِ تعلق کر رکھا ہو یا طلاق یافتہ) ہوجائے کوئی معاملہ پیش آتاہے تو سب سے اوّل یہی ۔ّمدعی اس مہر کے لزوم (ضروری ہونے) کے ۔ّمدعی بن جاتے ہیں۔ بہرحال اس کے سرسری ہونے کا دعوی تحقیقاً والزاماً (تحقیق اور لازم ہونے کی رُو سے) ہر طرح غلط ہے، مگر پھر بھی بہ فحوائے {یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَا لَیْسَ فِيْ قُلُوْبِہِمْط} (اپنے منہ سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں) عام طور سے اُس کا سرسری ہونا زبان زد (مشہور) ہوگیا ہے۔دل میں مہر ادا نہ کرنے کی نیت ہوتو وہ شخص زانی ہوکر مرے گا : سو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کو سرسری سمجھنا اور ادا کی نیت نہ رکھنا اتنی بڑی سخت بات ہے کہ حدیث شریف میں اس پر بہت ہی بڑی وعید آئی ہے، چناںچہ کنز العمال بروایت ابویعلی و طبرانی ورافعی وابن النجار وابن عساکر و بیہقی کے، حضرت صہیب ؓ سے بروایت ابنِ مندہ کے میمون بن جابان الصردی عن ابیہ سے باختلاف بعض الفاظ یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کا کچھ مہر ٹھہرائے، پھر یہ نیت رکھے کہ اس کے مہر میں سے اس کو کچھ نہ دے گا یا اس کو پورا نہ دے گا تو وہ شخص زانی ہوکر مرے گا اور اللہ تعالیٰ سے زانی ہوکر ملے گا۔‘‘ (۸؍۲۴۸) سو ملاحظہ کیجیے کہ کتنی بڑی سخت وعید ہے کہ باوجود صورتِ نکاح پھر اس شخص کا شمار زانیوں میں ہوا، تو کیا اب بھی یہ کوتاہی قابلِ تدارک (تلافی کے قابل) نہیں ہے؟1 اور ہر چند کہ عمل میں اور وعید میں وجۂ تعلق معلوم کرنے کی