اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۔ بعض فلسفیت کے رنگ میں ہیں۔ ۲۔ بعض تصوّف کے رنگ میں۔اہلِ فلسفہ کا دعوی اور اس کا ردّ : قسمِ اوّل کی تقریر یہ ہے کہ ’’اصل مقصود شارع کو تہذیبِ اخلاق ہے، زمانہ نزولِ حکمِ صلاۃ میں لوگوں میں صفاتِ ذمیمہ کبر و ظلم وغیرہ کا غلبہ تھا، نماز کی ہیئات و اوضاع و اذکار تواضع و لین کی تعلیم دیتے ہیں، اس لیے ان کو نماز کا حکم کیا گیا، ہم چوںکہ ۔ّمہذب ہوچکے ہیں، لہٰذا ہم کو نماز کی ضرورت نہیں‘‘۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ سب اس پر مبنی ہے کہ احکامِ شرعیہ کو مقصود با۔ّلذات نہ کہا جائے، مقصود بالغیر کہا جائے، اور پھر وہ غیر بھی وہی اُمور ہوں جو تم دعویٰ کرتے ہو، سو اس میں دو دعوے تمہاری طرف سے ہوئے ہیں جن کا اثبات کرنا تمہارے ذ۔ّمے ہے، جس پر تم قیامت تک بھی قادر نہ ہوگے، بلکہ یہ احکام خود بھی مقصود با۔ّلذات معلوم ہوتے ہیں، بس ایسے بے سر وبن شبہات سے یہ قطع ویقین زائل نہیں ہوسکتا۔ غرض عقلاً وسمعاً ایسا اعتقاد یقینا الحاد و زندقہ ہے اور ایسا شخص ہر گز مسلمان نہیں،اس کو نماز کے ساتھ تجدیدِ ایمان کا خطاب کرنا ضروری ہے۔ یہ جواب جب ہے کہ ہم اس کو مان لیں کہ واقعی یہ لوگ اپنی تہذیبِ نفس سے فارغ ہوچکے ہیں، حالاںکہ ہنوز اس میں کلام ہے، ترفع و۔ّتجبر و تعلی و تکبر و ظلم و نخوت و قساوت و غفلت جس درجہ ان مدعیوں میں بڑھی ہوئی ہے، اُس زمانے میں اس کا عشر ِعشیر بھی نہ تھا، اگر مشروعیت صلاۃ کی ان ہی مصالح کے لیے ہوتی تب بھی یہ لوگ بہ نسبت اس زمانے والوں کے نماز کے زیادہ محتاج ہوئے۔ اس مرض کا کہ جہل ہے، نیز علاج ہماری اس تقریر میں غور کرنا، اور یہ کافی نہ ہو تو محققین سے اپنے شبہات کو دفع کرلینا ہے۔اہلِ تصوّف کی تقریر اور اس کا جواب : قسم ثانی کی یعنی جو تصوّف کے رنگ میں ہیں، ان کی تقریر یہ ہے کہ ’’اصل مقصود قربِ الٰہی ہے، اور نماز ودیگر طاعات بھی اس کا واسطہ ہے، اور واسطہ بھی بالصورت نہیں، بلکہ بالحقیقت اور وہ حقیقت ذکر ہے، پس اگر کسی کو ذکرِ دائم میسر ہوجائے، اس کو نماز کی حاجت نہیں، یا نماز ہی پڑھ پڑھ کر مقامِ قرب میسر ہوجائے پھر بھی نماز کی حاجت نہیں، اگر پڑھتا بھی رہے تو اس پر فرض نہیں رہی، فرائض اس کے حق میں نوافل ہوگئے۔‘‘