اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۶۔ یَا أَیُّہَا النَّاسُ! عَلَیْکُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ۔ (طب والخطیب عن أبي أمامۃ) ۷۔ یَا أَیُّہَا النَّاسُ! خُذُوْا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ الْعِلْمُ۔ (حم والدارمي طب وأبو الشیخ في ’’تفسیرہِ‘‘ وابن مردویہ عن أبي أمامۃ) ۸۔ وَیْلٌ لِمَنْ لَا یَعْلَمُ۔ (حل عن حذیفۃ) کَذَا فِيْ ’’کَنْزِ الْعُمَّالِ‘‘ وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِنَ النُّصُوْصِ الْعَامَّۃِ لِلرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ۔دلیلِ عقلی : اور دلیلِ عقلی یہ ہے کہ اصلاح عقائد واعمال کی فرض ہے اور وہ موقوف ہے ان کی تحصیل پر، چناںچہ ظاہر ہے اور فرض کا موقوف علیہ فرض ہے، پس تحصیلِ علم فرض ہوا۔ اور ہر چند کہ موقوف ہونا عمل کا علم پر بالکل بدیہی ہے، مگر اس سے ترقی کرکے کہا جاتا ہے کہ حسّی بھی ہے، چناںچہ بے علم عورتیں جس حالت میں ہیں، سب دیکھتے ہیں کہ نہ ان کو شرک وکفر کی کچھ تمیز ہے، نہ ایمان اور اسلام کی کچھ محبت ہے، جو چاہیں خدا تعالیٰ کی شان میں بک دیتی ہیں، جو چاہیں اَحکامِ شرعیہ کے مقابلے میں زبان درازی کر بیٹھتی ہیں، اولاد کے لیے یا شوہر کو مسخرکرنے کے لیے ٹونے ٹوٹکے، جادو منتر، جو کچھ کوئی بتلادیتا ہے، بلا امتیاز مشروع نا مشروع کے سب ہی کچھ کر گزر تی ہیں۔ جب عقائد ہی میں یہ حالت ہے تو نماز روزے کا کیا ذکر ہے، حتیٰ کہ بعض کی نوبت ترک سے گزر کر استخفاف، بلکہ تشام وتطیر (بدفالی) تک پہنچ جاتی ہے، یعنی بعض تو باوجود فرض سمجھنے کے اس کو ترک ہی کردیتی ہیں اور بعض اس کی وقعت بھی نہیں کرتیں، کوئی ضروری امر نہیں سمجھتیں اور بعض اس کو منحوس و موجبِ مضرّت اعتقاد کرتی ہیں اور یہ دو درجے کفر ِصریح ہیں، اور اوّل فسق وکبیرہ ہے۔ جب نماز روزے میں یہ کیفیت ہے جس میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا تو زکوٰۃ و حج جس میں پیسے کابھی خرچ ہے، اس کو تو پوچھو ہی مت! اور جب عقائد واعمالِ دیانت کا یہ حال ہے تو معاملات کی درستی کا تو احتمال ہی نہیں ہوسکتا، کیوںکہ نماز روزے کی صورت تو دین کی ہے اور معاملات تو عوام کی نظر میں بالکل دنیا ہی کی شکل رکھتے ہیں، اس لیے ان کی درستی کا اہتمام تو خاص لوگ کرتے ہیں، جاہل مستورات کیا درستی کریں گی؟ پھر جب معاملات کے ساتھ یہ طرزِ عمل ہے تو معاشرت کی اصلاح تک تو کہاں ذہن جائے گا؟ کیوںکہ معاملات کو حقوق العباد تو سمجھا جاتا ہے، بہ خلافِ معاشرت کے کہ اس میں یہ پہلو بھی ظاہر نہیں ہے، اس لیے اس کا بالکل ہی اہتمام کم ہے، پھر جب معاملات ومعاشرت سے اتنی بے پروائی ہے تو اخلاقِ باطنی مثل تواضع واخلاص وخوف ومحبت و صبر و شکر ونحو