اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں آیا ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ دینے سے دس گنا ثواب ملتا ہے اور قرض دینے سے اٹھارہ گنا، اور حدیث میں اس کی وجہ بھی آئی ہے کہ صدقہ تو وہ شخص بھی مانگ لیتا ہے جس کو حاجت نہ ہو، مگر قرض بدون حاجت کے (اورحاجت بھی اکثر اضطراری) کوئی نہیں مانگتا (کیوںکہ اپنی گردن کو کون بندھائے؟) یعنی غالب عادت یہی ہے، پس صدقہ دینے میں ضروری نہیںکہ رفعِ اضطرار ہوا ہو اور قرض دینے میں رفعِ اضطرار ہوتا ہے، اور اضطرار اور پریشانی کا رفع کرنا ظاہر ہے کہ کس قدر عظیم راحت پہنچاتا ہے اس لیے اس کا ثواب زیادہ ہوا۔ رہ گئی تخصیص اٹھارہ عدد کی، گو اس کا نکتہ نہ سمجھنا ہم کو ضروری ہے اور نہ سمجھانا، کیوںکہ طبیب کے نسخے میں مریض کو منصب نہیں اوزانِ ادویہ کی ۔ِلم دریافت کرنے کا، بلکہ استعمال اور اعتقاد ضروری ہے، اسی طرح ہمارا مذہب، بندہ ہونے کی حیثیت سے یہ ہونا چاہیے: زبان تازہ کردن باقرار تو نینگختن علت از کارِ توحدیث میں اٹھارہ عدد کی تخصیص کیوں کی گئی؟ مگر تبرعاً وتفریحاً اگر کوئی تقریبی بات سمجھ میں آجاوے تو اس کے ذکر کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں، لیکن چوںکہ وہ تقریبی اور تخمینی مضمون ہوگا اس لیے اگر اس میں کوئی خدشہ نکل آوے تو مضر بھی نہیں، کیوںکہ اصل ایمان نص پر ہے نہ کہ اپنے نکات ولطائف پر، غرض وہ نکتہ جو خاطرِ فاتر میں اس کے متعلق آیا ہے، یہ ہے کہ اصل میں ثواب قرض کا صدقے سے بحیثیت مذکور دگنا ہے، پس صدقہ اگر دس تک مضاعف ہوتاہے تو قرض بیس تک ہونا چاہیے، تو قرض کا ایک درہم صدقے کے دو درہم کے برابر ہوا، لیکن چوں کہ وہ درہم واپس آجاوے گا، اس لیے بیس کے عدد میں سے دو عدد کم ہوگئے، اس لیے اٹھارہ رہ گئے۔ واللہ اعلم! اور جب قرض کا ثواب صدقے سے مضاعف ہونا معلوم ہوگیا، تو اسی سے یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ نصوص سے ثابت ہے کہ دس حصے تک ثواب کا بڑھنا یہ ادنیٰ درجہ ہے، ورنہ تفاوتِ خلوص سے اس سے بڑھ کر سینکڑوں ہزاروں تک پہنچتا ہے، پس صدقے کا ثواب دس سے زائد بھی ہوتاہے اور قرض کا ثواب اس سے مضاعف بھی ہے، اور اخیر میں ایک عشر منہا ہوجاتا ہے پس قرض کا ثواب بھی اٹھارہ تک محدود نہیں بلکہ کبھی چھتیس حصے ہوگا، یعنی چالیس حصے ہوکر چار گھٹ جاوے گا، اور کبھی اَسّی ہوکر اس میں سے آٹھ گھٹ کر بہتر رہ جاوے گا، حتیٰ کہ اگر صدقے کا ثواب سات سو تک ہوتو قرض کا ثواب چودہ سو تک ہوگاجو اخیر میں بارہ سو ساٹھ رہ جاویں گے، تو کیا یہ فائدہ نہیں ہے کہ ایک روپیہ قرض دیا اور آخرت