اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہاں تک یہ سب جزئیات ہوئیں ان اضاعاتِ حقوق کی جو زمانۂ تحصیل علوم میں سرزد ہوتی ہیں۔فراغت کے بعد کی کوتاہی : ایک قسم وہ ہے جو بعد مفارقت اُستاد کا کوئی حق اپنے اُوپر نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہوں مگر عمل کا اہتمام نہیں کرتے، اور اس بلا میں بہت زیادہ ابتلا ہے، اور تو کیا کرتے، کبھی خط بھیجنے کی اور اُستاد کی خیریت پوچھنے کی توفیق نہیں رہتی، سمجھتے ہیں کہ اب کیا علاقہ رہا، کیا صاحب! محسن کا حق صدورِ احسان ہی کے زمانے تک ہوتاہے، پھر نہیں رہتا؟ اگر یہ بات ہے، پس بعد بالغ ہوجانے کے والدین کے حقوق بھی رُخصت ہوجاویں گے، ولا قائل بہ۔ پھر یہ ہے کہ گو صدور احسان کا اس وقت اُستاد سے نہیں ہورہاہے لیکن اس احسان کے آثار کا ظہور و تر۔ّتب تو اس وقت بھی ہورہاہے بلکہ زیادہ اسی وقت ہورہا ہے، کیوںکہ جتنا کمالِ علمی اس وقت تمہارا ظاہر ہورہا ہے اس کا منشا و مبدا وہی انعامِ تعلیمی اُستادہی کا تو ہے، ونعم ما قیل في نحوہذا المعنی: فعادوا فأثنوا بالذي کان أہلہ ولو سکتوا أثنت علیہ الحقائب غرض یہ ناسپاسی ہی ہے کہ اپنا کام نکالا اور الگ ہوئے، یہ توپوری خود غرضی ہے، سپاس گزاری یہی ہے کہ ہمیشہ جب تک جان میں جان ہے وہ وقت یاد رکھے کہ جب یہ اس کے سامنے کتاب رکھ کر بیٹھتا تھا اور یہی سمجھے کہ گویا ابھی اس کے پاس سے پڑھ کر اُٹھ کر آیا ہوں اور پھر پڑھنے کے لیے جانا ہے، تو اس وقت جتنے حقوق کو یہ ضروری سمجھتا تھا، جن کی بہ قدر ضرورت تفصیل بھی ہوچکی ہے، وہی حقوق اب بھی باقی ہیں، ایسا کرنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ یوماً فیوماً علوم وبرکات میں ترقی ہوگی۔ قال تعالٰی:{لَئِنْ شَکَرْتُکُمْ لَاَزِیْدَنَّـکُمْ}1 بلکہ ان حقوق کو ایسا مستمر سمجھے کہ اُستاد کی وفات کے بعد بھی وہ حقوق ملحوظ رکھے جو اس وقت ادا کیے جاسکتے ہیں اور ان کا خلاصہ دو امر ہیں: ایک اس کے لیے ہمیشہ دُعائے مغفرت کرنا، دوسرے اس کے اہل واقارب کی تعظیم وخدمت کرنا، اسی طرح اُستاد کے دوستوں اور معاصرین کا احترام کرنا اور اگر ان کو حاجت ہو تو ان کی خدمت کرنا۔ احادیث میں اس قسم کے حقوق والدین کے لیے آئے ہیں اور جنابِ رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے جو بعد وفاتِ نبویہ آپﷺ کے اہل کی خدمت کریں گے اور آپﷺ کی عزت سے محبت رکھیں گے۔