اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی، البتہ اگر عورت مہر معاف کردے یا مہر پر خلع کرلے، اس صورت میں بے شک مہر ساقط ہوجاتاہے۔مہر کے متعلق ایک کوتاہی جس سے نکاح ہی منعقد نہیں ہوتا ـ: ایک غلطی مہر کے متعلق (اگرچہ اس کا تعلق ما بعد الطّلاق کے ساتھ نہیں ہوتا مگر یہاں استطراداً ذکر کی جاتی ہے) یہ ہے کہ بعضے دین دار تقلیلِ مہر کی ترغیب وفضائل سن کر ہر جگہ اس پر عمل کرتے ہیں، حالاںکہ بعضے مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں، اور وہ موقع ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ اگر نابالغ لڑکی کا نکاح کرنے والابجز اس کے باپ یا دادا کے کوئی اور ولی ہو، جیسے بھائی یا چچا تو اس صورت میں اس کا مہر اگر مہر ِمثل سے بہت کم ہو تو حسب ِتصریح ’’درّ مختار‘‘ یہ ہے کہ نکاح ہی صحیح نہ ہوگا۔ اور صاحب ’’درّمختار‘‘ نے صدر الشریعت کے حکمِ صحت کو وہم کہا ہے، پس ایسے موقع پر یا تو مہرِمثل ۔ّمقرر کرے یا اس صغیرہ کو بالغ ہونے دے، پھر اس کی رضا سے مہر قلیل کیا جائے۔طلاق یا موت ہوجانے پر مہرِ مؤجل کا حکم : ایک اور مسئلے کے متعلق استطراداً ذکر کیا جاتاہے، وہ یہ کہ مہر ِمؤجل میں اگر اجلِ مجہول بہ جہالتِ فاحشہ ہو تو حسبِ تصریح ۔ُفقہا وہ تاجیل صحیح نہ ہوگی، مہر ِمعجل واجب ہوگا، لیکن اگر یہ اَجل طلاق یا موت ہو گو جہالتِ فاحشہ ہے، مگر اس کی صحت میں اختلاف ہے، بعض نے اس کو جائز کہا ہے، مگر احقر کو اس میں تردّد ہے، ۔ُعلمائے محققین سے مراجعت کی جائے، اور اگر اس قول کو کوئی شخص لیتا ہے تو اسی کے ساتھ ایک اور قول بھی مفتیٰ بہ کہا گیا ہے، وہ یہ کہ اگر مہرِ مؤجل ہو تو عورت کو اس اَجل کے قبل انکار کرنا تسلیمِ نفس (خود کو مرد کے سپرد کرنے) سے جائز ہے، اور اگر ایک بار صحبت ہوجاوے، دوسری بارمیں یہ انکار جائز ہے، اور تاجیل کے اس حکم میں گو اختلاف ہے مگر ’’درّمختار‘‘ میں اس کو مفتیٰ بہ اور استحسان کہا ہے ، سو اگر مؤجل بالطّلاق و بالموت میں مرد اِس فتوے کو لے گا تو عورت اس فتوے کو لے سکتی ہے۔عورت ایک بار مہر معاف کردے تو پھر وصول نہیں کرسکتی : ایک غلطی مہر کے متعلق کہ وہ بھی استطراداً مذکور ہوتی