اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور فنائے ارادہ کے لیے یہ لازم ہے کہ متابعت تعمیلِ ارشاد میں مبادرت وسبقت ہو، جب متابعت نہ ہوئی تو ظاہر ہے کہ حقیقی عظمت بھی دل میں نہ ہوئی اور جس طرح غلبۂ عظمت سے ارادہ فنا ہوتاہے اسی طرح غلبۂ محبت سے بھی فنائے ارادہ پیدا ہوتاہے، گو دونوں کیفیتیں جدا جدا قسم کی ہیں، مگر فنائے ارادہ دونوں کے لیے لازم اعم ہے۔ جیسے حرارت کہ نار کو بھی لازم ہے اور دھوپ کو بھی، پس جس طرح حرارت کے نہ ہونے سے دھوپ اور آگ کا معدوم ہونا لازم آتاہے، اسی طرح جب متابعت نہ ہوگی محبت وعظمت دونوں کے معدوم ہونے کا حکم کیا جائے گا۔ اسی معنی میں حضرت عبداللہ بن المبارک ؒ کا ارشاد ہے : لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہٗ إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ مُطِیْعٗ اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اس کی اطاعت کرتا، بے شک عاشق محبوب کا فرماں بردار ہوتا ہے۔ البتہ ادنیٰ درجے کی محبت واعتقادِ عظمت کا انکار نہیں کیاجاتا، لیکن شرعاً مطلوب ہے ان دونوں کا غلبہ اور قوت، جیساکہ اس ارشادِ نبویﷺ سے ثابت ہوتاہے: لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔ تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ اور ان لوگوں کا دیگر اُمورِ شرعیہ میں متابعت نہ کرنا تو ظاہر ہے۔حضرات انبیا و ملائکہ ؑ کی شان میں گستاخی : چناںچہ مضمونِ مذکور میں کچھ اس کی تفصیل بھی ہے، لیکن خاص ان اُمور میں جن کو وہ عنوانِ محبت سے اختیار کرتے ہیںاس متابعت کا معدوم ہونا اس مضمون میں مجملاً بیان کیا گیا ہے کہ ان میں بھی بسا اوقات ’’حدودِ شرعیہ‘‘ کو محفوظ نہیں رکھتے، اس کی تفصیل ان لوگوں کے ان طریقوں کے دیکھنے سے ہوتی ہے، مثلاً: ۱۔ یہ کہ آپﷺ کی مدائح میں اس قدر غلوّ اور مبالغہ کرتے ہیں کہ اس میں دوسرے حضراتِ انبیا اور ملائکہ ؑ کی شان