اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس التزام پر اس قدر شاداں ونازاں ہیں کہ اپنے کو صاحبِ استقامت سمجھتے ہیں کہ کبھی کسی معمول میں تغیر نہیں ہوتا۔ میں نے ایک شخص کو یہ فخر کرتے سنا ہے کہ ’’صاحب! میری فرض نماز تو ناغہ ہوجاتی ہے، مگر پیر صاحب نے جو کچھ بتلادیا ہے وہ کبھی قضا نہیں ہوتا‘‘۔ غلو فی الدین اور اتخاذِ اَحبار ورُہبان کی یہ اقبح افراد میں سے ہے، سبب اس کا جہل ہے علومِ شرعیہ سے کہ حدود اعمال کی معلوم نہیں، خواہ یہ بے علمی بسیط ہو یا مرکب ہو علی اختلاف الاقوال، یہ تو تضلیل شیطانی تھی۔تسویلِ نفسانی : اور تسویلِ نفسانی اس طرح سے ہے کہ إفراط في الشفقۃ علی الخلق کے سبب یہ خیال ہوتا ہے کہ جلدی پڑ ھ لینے سے بہت لوگ جماعت سے رہ جائیں گے، خوب انتظار کرنا چاہیے تاکہ سب جماعت میں مل جائیں اور کوئی محروم نہ رہے، اس کانام ’’تسویل‘‘ اس لیے رکھا گیا کہ صورتاً یہ خیال نہایت محمود ہے اور ’’نفسانی‘‘ اس لیے کہا گیا کہ منشا اس کا ایک صفت ہے صفاتِ نفسانیہ سے، کہ وہ شفقت ہے اور گو وہ فی نفسہٖ صفتِ محمودہ ہے اور اس لیے جو خیال اس سے ناشی ہے کہ وہ خیر خواہی ہے آنے والے نمازیوں کی، کہ کوئی محروم نہ رہ جائے، وہ بھی نیک ہے، مگر ہر محمود اسی وقت تک محمود ہے جب تک وہ کسی امرِ مذموم کو متضمّن نہ ہو اور یہاں یہ شفقت اور یہ خیر خواہی سبب ہوگئی تضییقِ وقت کی ۔ّحدِ غیر مشروع تک اور یہ مذموم ہے، اس لیے وہ منشا اور ناشی سب مذموم ہوگیا۔ اور ان سب نمازوں میں سب سے زیادہ قابلِ نظر ایسے حضرات کے لیے جمعہ کی نماز ہے، کیوںکہ اور نمازوں کا اگر وقت نکل گیا اور علم نہ ہوا تو وہ فرد قضا کی تو بن سکتی ہیں، گو بعض ۔ُفقہا کے نزدیک سہی، اور جمعہ کا وقت اگر نکل گیا تو اس کی قضا ظہر سے ہوسکتی تھی نہ کہ جمعہ سے، پس جب جمعہ پڑھا تو وہ نہ ادا ہوا، کیوںکہ وقت نہ تھا۔ اور نہ قضا، کیوںکہ قضا میں جمعہ نہیں پڑھا جاتا، تو بس یہ نماز ان سب کے ذ۔ّمے پر واجب رہی۔ اور رہی وہ مصلحت کہ کوئی رہ نہ جائے، اوّل تو جب اس میں اتنا بڑا مفسدہ لازم ہے تو اس مصلحت کا کیا اعتبار؟ پھر وہ مصلحت بھی کچھ تاخیر کے ساتھ خاص نہیں، تجربے سے یہ اَمر یقینی ہے کہ اس باب میں جس جگہ جیسی عادت کا التزام کرلیا جاتاہے تمام لوگ اسی کے تابع ہوجاتے ہیں، جہاں سویرے نمازیں ہوتی ہیں، سب کو تقاضا رہتا ہے کہ جلدی چلو، چناںچہ سب فوراً جمع ہوجاتے ہیں، اور کوئی بھی متخلّف نہیں رہتا اور جو رہنے والے ہیں وہ مشاہدے سے دیکھا جاتا ہے کہ اس تاخیر میں بھی رہ جاتے ہیں، بلکہ اکثر رہتے ہیں، ان کو بے فکری رہتی ہے کہ ’’میاں! ابھی کیا جلدی ہے، وہاں تو