اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طرح ناکح ومنکوح کے اشتہار بھی اخباروں میں چھپنے لگے، کبھی ناکح صاحب اعلان کرتے ہیں کہ ’’ہمارے پاس یہ جائیداد، یہ نوکری، یہ کمالات ہیں، اور ہم کو ان اوصاف کی منکوحہ چاہیے، جس کو منظور ہو، ہم سے خط و کتابت کرے۔‘‘ پھر اس کے جواب میںکوئی بی بی صاحبہ اخبار میں یا خاص طور پر جواب لکھتی ہیں اور اپنا جامع اوصاف اور حسین ہونا اپنے بے شرم قلم سے لکھتی ہیں اور کچھ شرطیں کرتی ہیں، بس اسی طرح خط وکتابت ہوکر کبھی سودا بن جاتاہے، کبھی نہیں بنتا، کبھی نکاح سے پہلے ہی دو چار ملاقاتیں ہوجاتی ہیں، تاکہ تجربہ وبصیرت کے بعد نکاح ہو، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ کیسی آفتیں نازل ہورہی ہیں، اللّٰہم إنا نعوذبک من الفتن ما ظہر منہا وما بطن (اے اللہ! ہم تجھ سے فتنوں سے پناہ مانگتے ہیں جو اُن میں سے ظاہر ہیں،اور جو پوشیدہ ہیں)۔عاقلہ بالغہ کا بلا ضرورت از خود نکاح کرنا مذموم ہے : ا س میںکلام نہیںکہ عاقلہ بالغہ خود اپنے نکاح کی بات چیت ٹھہرالے، اورایجاب وقبول کرلے تو نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا بلا ضرورت وبلا مصلحت معتد بہا ایسا کرنا کیسا ہے؟ سو یہ اَمر نہ شرعاً محمود (پسندیدہ) ہے نہ عقلاً، شرعاً تو اس لیے کہ ’’تخریجِ زیلعی‘‘ میں ’’دارقطنی و بیہقی‘‘ سے حضور ﷺ کا ارشاد روایت کیا ہے: لَا تُنْکِحُوا النِّسَائَ إِلَّا مِنَ الْأَکْفَائِ وَلَا یُزَوِّجْہُنَّ إِلَّا الْأَوْلِیَائُ، وَلَا مَہْرَ أَقَلُّ مِنْ عَشْرَۃِ دَرَاہِمَ۔1 یعنی عورتوں کا نکاح نہ کرو، مگر ان کے کفو میں، اوران کی شادی نہ کرو، مگران کے ولی کی موجودگی میں، اور ان کا مہر دس درہم سے کم ۔ّمقرر نہ کرو۔ گو بہ وجہ دوسری حدیث کے: اَلْأَیِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا۔2 یعنی بالغ عورت (اپنے نکاح کے معاملے میں) اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے۔ ’’لا یزوجہن‘‘کو ’’نہی‘‘ کہیں گے،’’ نفی‘‘ نہ کہیں گے جوکہ مستلزم ہو عدمِ صحت کو، لیکن ’’نہی‘‘ بھی تو عمل ہی کے واسطے