اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جگہ جگہ {اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} کے ساتھ {وَاٰتُوا الزَّکَوٰۃ} آنا اس اہمیت میں شریک ہونے کی تائید کرتاہے، اس لیے اس کے متعلق کوتاہیوں پر مطلع ہونا بھی نہایت اہم ہوگا، پس مختصراً ان کو لکھا جاتاہے: ۱۔ ایک کوتاہی تو جو سب سے بڑی ہے، یہ ہے کہ بہت سے لوگ زکوٰۃ ہی نہیں دیتے، اس کی اصلاح یہ ہے کہ وہ لوگ زکوٰۃ کی تاکید وفرضیت کے نصوص اور اس کے ترک پر جو وعیدیں آئی ہیں ان کو دیکھیں، سنیں، غور کریں، اور اس کا جو اصلی سبب ’’بخل‘‘ ہے اس کا علاج کریں، اس علاج کا حاصل مال کی محبت گھٹانا ہے، جس کی سب سے اچھی تدبیر موت کا بہ کثرت یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ اور اگر اس کو تاہی کا سبب فرضیت کا اعتقاد نہ ہونا ہے، گو آج کل ایسا شخص سنا نہیں گیا، لیکن اگر نادراً ایسا ہو تو اس کی اصلاح اپنے شبہات کا کسی محقق عالم سے رفع کرنا ہے، اور اگر رفع نہ کیا اور منکرِ فرضیت رہا تو وہ کافر ہے۔ ۲۔ ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے زکوٰۃ دیتے ہیں مگر حساب سے نہیں دیتے، جو کچھ جی چاہا دے دی، سو یہ بھی نہ دینے ہی میں داخل ہے، کیوںکہ ایک ہزار کے مال میں پچیس روپے واجب تھے، اور اس نے دس روپے دیے تو چار سو کی زکوٰۃ ادا ہوگئی، اور چھ سو کی رہ گئی، تو ایسا ہوگیا جیسے کسی کے پاس چھ ہی سو روپے ہوں، اور بالکل زکوٰۃ نہ دے، پس اس میں بھی وہی معروض ہے جو اُوپر مذکور ہوا۔کون سے مال پر زکوٰۃ واجب ہے؟ ۳۔ ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعضے لوگ بعض اموال کی زکوٰۃ دیتے ہیں، اور بعض اموال کی نہیں دیتے، اس کا زیادہ سبب یہ ہے کہ ان کو یہ خبر نہیں کہ کس کس مال میں زکوٰۃ ہوا کرتی ہے، اس لیے ان اموال کو بتلایا جاتاہے۔ ز ایک چاندی، سونا ، خواہ سکہ کی صورت میں ہو، خواہ زیور کی صورت میں ہو، خواہ گوٹا ٹھپا ہو، خواہ ویسے ہی ٹکڑے رکھے ہوں، اورخواہ پاس موجود ہو اور خواہ موجود نہ ہو، مگر اس کا وصول کرنا یا اس سے منتفع ہونا ممکن ہو، جیسے نوٹ لے لیے ہوں یا بینک میں جمع ہو یا کسی کے ذمے قرض آتا ہو، خواہ نقد دیا ہو یا کوئی چیز فروخت کی ہو، اور وصول سے نااُمیدی نہ ہو، لیکن قرض میں یہ اختیار ہے کہ خواہ اور اموال کے زکوٰہ کے ساتھ دے دے، خواہ جب وصول ہوتا رہے دیتا رہے، لیکن اگر وصول کے وقت دے گا تو تمام ایامِ گزشتہ کی دینی پڑے گی، مثلاً: دو سال میں سو روپے وصول ہوئے تو ان کی زکوٰۃ اڑھائی روپے سال کے حساب سے دوسال کی پانچ روپے دینا پڑے گی۔ ز دوسرا مالِ تجارت، اور مالِ تجارت وہی ہے جس کے خریدنے کے وقت یہ نیت ہو کہ ہم اس کو بیچیں گے، خواہ وہ منقولات میں سے ہو، خواہ غیرمنقولات میں سے ہو، مثلاً: ایک شخص کی یہ عادت ہے کہ مکانات واَراضی موقع کی خرید لیتا