اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بعض عوارض کے سبب تعددِ ازواج گناہ ہوسکتاہے : البتہ بعض عوارض کے سبب اس کاجواز بمعنی ’’عدم الاثم‘‘(گناہ نہ ہونے کے) مرتفع ہوجاتاہے، یعنی جب احتمالِ غالب عدمِ عدل کا ہو تو اس وقت باوجود اِستحسان فی نفسہٖ (بنفسہٖ اچھا ہونے) کے اس عارضِ خاص کی وجہ سے اس تعددِ سے منع کیا جائے گا، لقولہ تعالیٰ: { فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً}1 پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھرایک ہی بی بی پر بس کرو۔ لیکن خود عورتوں کے بے اعتدالیوں کا اندیشہ ہوتو اس وقت تعددِ سے نہیٔ شرعی (شرعی ممانعت) تو نہیں،لیکن قواعدِ شرعیہ (شریعت کے اُصولوں) کی رُوسے مشورتاً ایک پر کفایت کرنے کے لیے کہا جائے گا، اور یہ مشورہ بھی اس معنی کو شرعی ہوگا جس طرح حضورﷺ نے حضرت جابر ؓ کو یہ مشورہ دیا تھا: ہَلَّا بِکْرًا تُلَاعِبُہَا وَتُلَاعِبُکَ۔ کیا کوئی کنواری نہیں تھی کہ تم اس سے جی بہلاتے، اور وہ تم سے دل بہلاتی۔بالغ ہونے کے بعد کنواری لڑکیوں کی جلد شادی نہ کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں : اوراس کے مقابل ایک کوتاہی عورتوںکے متعلق ہے، یعنی کوتاہی ٔ مذکور کا حاصل تو مردوں کے لیے توسع (وسعت کرنا) تھا کہ کئی کئی عورتوں سے شادی کرتے ہیں، اور اس آیندہ کوتاہی کاحاصل عورتوں کے حق میں تنگی کرنا ہے، وہ یہ کہ بعض احوال میں ان غریبوں کے لیے خود شادی ہی کو مہتم بالشان نہیں سمجھتے، کہیں صرف عملاً، کہیں اعتقاداً بھی، صرف عملاً ایسا کہ بعضے ناعاقبت اندیش کنواری لڑکیوں کو بالغ ہوجانے پر بھی کئی کئی سال بٹھلائے رکھتے ہیں، اور محض ناموری کے سامان کے انتظار میں ان کی شادی نہیںکرتے، حتیٰ کہ بعض بعض جگہ تیس تیس2 اور کہیں چالیس چالیس برس کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں، اور اندھے سرپرستوں کو کچھ نظر نہیں آتا کہ اس کا کیا انجام ہے؟ حدیثوں