اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳۔ جدیدہ کی چغلیوں سے مجھ کو تکلیف دی جائے گی، ان سب شبہات کو خوب صورتی سے رفع کرنا۔ اور میرے نزدیک ایسے موقع پرتسلی کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو مصیبت ہی تسلیم نہ کیا جائے کہ صبر کی ترغیب دی جائے، اور یہ جو میں نے کہا کہ ’’ایسے موقع پر تسلی کا طریقہ یہ ہے‘‘ مراد ایسے موقع سے وہ موقع ہے جہاں اس کا نعمت ہونا بھی ثابت کرسکے، جیسے:حضرت حکیم الاُمت ؒ کا طریقۂ عمل : بفضلہ تعالیٰ اس ناکارہ کی حالت ہے، وہ یہ کہ میں نے قدیمہ (یعنی پہلی بیوی) کی دل جوئی میں بے حد بیشی (پہلے سے بہت زیادتی) کردی، گو میں نے کوئی گناہ کا یا عیب کاکام نہ کیا تھا، لیکن اُن کے عین ثورانِ شکایت (شکایت کے دوران خون کا جوش مارنے) میں اُن کے تجاوز عن التہذیب (تہذیب کی حد سے گزرنے) کو غلبۂ حال پر محمول کرکے اُن کو معذور قرار دیا، اور اس طرح سکون و سکوت وضبط سے کام لیا، جیسے کوئی عیب کرکے خجل و شرمندہ ہوتا ہے، اور تمام تر جوش و خروش کا جواب ان الفاظ سے دیا کہ، خیر میں نے دل سے سب معاف کیا، اللہ تعالیٰ تمہاری اصلاح فرمائے، میں بہ وجہ پختگیٔ۔ِ سن و کثرتِ مشاغل خدمتِ خلائق ان سے بالکل بے فکر ہوگیا تھا، بعض اوقات دن دن بھر گھر جانے کی نوبت نہ آتی تھی، عشا کی نماز پڑھ کر فوراً سو رہتا، بات کی بھی فرصت نہ ملتی تھی، مگر اب اُن کی دل جوئی کاخاص اہتمام شروع کردیا، ذرا ذرا بات میں ان کی رعایت ملحوظ کرنے لگا، چوںکہ میرامزاج فطرتاً تیز ہے اور عورتوں میں کجی (ٹیڑھا پن) لازم ہے، کسی میں کم، کسی میں زیادہ، اکثر جب کبھی ایسا موقع پیش آتا تھا اس میں تحمل (برداشت) نہ کرتا تھا، قولاً (زبان سے) بھی تیز الفاظ کہتا، اور عملاً بھی بعض اوقات کھانا چھوڑ کر گھر سے مدرسہ میں چلا آتا تھا، ایسا اتفاق بہ کثرت ہوتا تھا، جب سے یہ واقعہ ہوا اُس برتاؤ کا نام ونشان نہیں رہا، اور اُدھر سے کتنی ہی کجی ہوئی، اِدھر سے بہت زیادہ نرمی اور راستی (سیدھا پن) برتی گئی، خلاصہ یہ کہ اس قدر نرم برتاؤ اختیار کیا گیا کہ بعض لوگ تو مجھ کو بے غیرت کہنے لگے، بعضے بیوی سے ڈرنے والا، دبنے والا کہنے لگے، بعض نے یہ رائے قائم کی کہ یہ نرمی ہی سبب ہے دوسری جانب کی دلیری کا، البتہ یہ تو ہوا کہ جب کبھی شریعت پر اعتراض پہنچنے لگا، گو صاحبِ اعتراض کو اس کا احساس نہیں ہوا یا بے ہودگی کو زیادہ امتداد ہونے لگا، اوّل تو نرمی سے فہمایش کردی، اگر پھر اِصرار ہوا تو دوبارہ فہمایش (سمجھانے) میں قدرے آواز بلند ہوگئی، مگر اس میں بھی الفاظِ خَشِن(دُرشت) اور تیز زبان کو نہایت تکلف کے ساتھ روکا۔ غرض یہ خلاصہ تھا اور ہے میری حالت کا، تو اس میںغور کرکے ہر عاقل سمجھ سکتا ہے کہ میرا برتاؤ پہلے سے زیادہ اچھا ہوگیا، اور سبب اس کا وہی دل شکنی کے احتمال پر دل جوئی اور اس دلجوئی کا سبب یہی واقعۂ جدیدہ، تو اس صورت میں کیا شک رہا کہ اس واقعے کا قدیمہ کے حق میں نعمت ہونا بھی نہایت آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے، پس طریق تسلی کا یہ تھا۔ اور اگر