اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حقوق ہوتے ہیں؟ اس میں بہت سی خرابیاں نکلتی ہیں: بعض اوقات لڑکا نالائق نکلتا ہے جس کو منکوحہ سیانی ہوکر یا اولیائے منکوحہ پسند نہیں کرتے، اب فکر ہوتی ہے تفریق کی، کوئی مسئلہ پوچھا پھرتاہے، کوئی بے مسئلہ پوچھے ہی دوسری جگہ نکاح کردیتا ہے، کوئی تفریق یا خلع1 کی دیوانی میں درخواست کرتا ہے، کوئی منکوحہ کو اختیاراتِ فسخ حاصل ہونے کی تحقیق بلکہ کوشش کرتا پھرتاہے، لڑکا ہے کہ براہِ سر کشی نہ اس کے حقوق ادا کرتاہے، نہ اس کو طلاق دیتاہے، غرض ایک بلائے بے درماں( لا علاج مصیبت) ہوگئی۔ بعض اوقات دونوں بچپن میں ایک جگہ کھیلتے اور لڑتے ہیں، جس کا اثر بعض جگہ یہ ہوتاہے کہ ابتدا ہی سے شوہر کی وقعت (قدر و عزّت) عورت کے دل میں نہیں ہوتی، اور اس کی جو خرابیاں ہیں، ظاہر ہیں، اور بعض جگہ یہ ہوتاہے کہ باہم تنا۔ُفر و ۔َتباغض (آپس میں نفرت اور بغض) پیدا ہوجاتاہے۔ اور چوںکہ ابتدا سے دونوں ساتھ رہے تو شوہر کو کوئی خاص میلان، کیفیتِ شوقیہ کے ساتھ نہیں ہوتا، جیسا کہ بلوغ کے بعد نئی منکوحہ کے ملنے سے ہونا متوقع ومظنون ہے، اور اس قلتِ میلان کا ثمرہ بھی ہر طرح ۔ُبرا ہی ۔ُبرا ہے۔بڑی عمر کی لڑکی سے چھوٹے عمر کے لڑکے کا نکاح کردینے کے مفاسد اور خرابیاں : اور اس سے اَقبح واَشنع (بہت زیادہ ۔ُبرا) یہ ہے کہ جس کا ارتکاب بعض ۔ُحمقا (محض اپنی خاندانی مصلحتوں سے، قطع نظر زوجین کے مصالح سے) کرتے ہیں کہ لڑکا چھوٹا اور لڑکی بہت بڑی۔ اب لڑکی تو پہلے جوان ہوگئی، اور لڑکا ابھی چوں چوں کا بچہ ہے، بلکہ کہیں اتنا تفاوت (فرق) ہے کہ لڑکا اس کی گود کے کھلانے کے لائق ہے، ان بے عقلوں نے یہ تو دیکھ لیا کہ آپس میں رشتہ ہوجائے،آگے کو بھائی بہن کی اولاد میں تعلق و ارتباط رہے، مگر یہ نہ دیکھا کہ ان سب تعلقات وارتباطات کی اصل بنیاد زوجین کا توافق ہے، اور اس صورت میں خود اسی کی اُمید نہیں، چناںچہ ایسے مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ لڑکی میں جوانی کا تقاضا پیدا ہوگیا، اور لڑکا کسی قابل ہی نہیں، اور پھر وہ اگر کسی سے خراب وخستہ ہوگئی یا گھٹ گھٹ کر مدقوق (تبِ دق میں مبتلا) ہوگئی، اور پھر وہ اگرجوان بھی ہوا، تو اس کے جوڑ کا نہیں، ابتدائی تنافر (باہمی نفرت) کا اثر موجود، اور اس سے بڑھ کر ناکح کی وقعت مفقود (شوہر کی عزّت ختم)۔ بعض جگہ کم سنی میں تناکح (نکاح کرنے) سے یہ ہوا کہ بعد جوان ہونے کے وہ لڑکی اس لڑکے کو پسند نہیں، وہ اپنے لیے کہیں اور تلاش کرلیتا ہے، اور اس کی نہ خبر گیری کرتاہے، نہ طلاق دیتا ہے، خبر گیری کی نسبت تو عذر کردیتا ہے کہ ’’مجھ کو خبر ہی نہیں کہ میرا نکاح کب ہوا؟جنھوں نے کیا وہ ذ۔ّمہ دار ہیں‘‘، اور طلاق دینے کو عرفاً عار سمجھتا ہے، پس وہ عورت: ازین1 سوراندہ ازاں سو ماندہ، کی مصداق ہوجاتی ہے، کیا ان خرابیوں سے بچنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں؟