اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے جواب میں بھی وہی تقریر ِبالا جو فلاسفہ کے مقابلے میں لکھی گئی کافی ہے، اور اس پر بھی وہی فتویٰ اور وہی علاج عرض کیا جائے گا۔ اور دونوں کے خطاب میں اس مثال کا پیش کرنا مفید اور ۔معینِ رفعِ شبہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بعض ادویہ طبیہ میں باوجود بعض فاعل بالکیفیت ہونے کے بعض فاعل بالخاصیۃ ہوتے ہیں، اور اس کی تعیین اطبائے ماہرین کے حکم سے ہوتی ہے، اسی طرح اگر ان سب عباداتِ شرعیہ کو محض اپنی صورتِ نوعیہ وخاصہ کے اعتبار سے خاص ثمرات، مثل اخلاقِ مرضیہ حق و نجات و قرب و رضا میں فاعل اور مؤثر کہا جائے، اس کی نفی کی کیا دلیل ہے؟ اور اس بات کی دلیل نصوص کا سیاق واطلاق ہے کہ کہیں ان کا فاعل بہ واسطہ ہونا نہیں بتلایا گیا اور جو کہیں بعض طاعات کی حکمت بتلائی گئی ہے تو غایت مافی الباب اس حکمت کا مرتب علی الاحکام ہونا ثابت ہوتاہے، نہ کہ مرتب علیہ الاحکام ہونا، اور دعویٰ کا موقوف ہے ثبوت اَمر ثانی پر، یہ سب صورتیں تھیں ایک کوتاہی کی یعنی نماز نہ پڑھنے کی۔بعض مشایخ میں تاخیرِ صلاۃ کی عادت اور اس کا علاج : ۲۔ ایک کوتاہی نماز کے متعلق یہ ہے کہ بعضے آدمی حتی الامکان تو نماز فوت نہیں ہونے دیتے مگر وقت کا اہتمام نہیں کرتے، اکثر تنگ وقت میں نماز پڑھتے ہیں، بعض دفعہ قضا بھی ہوجاتی ہے گو کم سہی، اور گو پھر فوراً قضا پڑھ بھی لیتے ہیں۔ پھر بعض کو تو کوئی مجبوری ظاہری ہوئی ہے گو وہ مجبوری اس لیے معتبر نہیں کہ اگر اس میں سعی وتوجہ کرتے تو ضرور کوئی صورت انتظام کی نکل آتی، مگر بعض تو محض بے کار گپوں میں مشغول رہ کر وقت کو اخیر کردیتے ہیں۔ اور نہایت افسوس کے ساتھ کہا جاتاہے کہ بعض ان میں مشایخ ہیں اور محض تضلیلِ شیطانی یا تسویلِ نفسانی سے تاخیرِ صلاۃ کے خوگر ہوئے ہیں، چناںچہ ہر ایک کے متعلق مختصر کلام کیا جاتاہے۔ جولوگ ظاہراً کوئی مجبوری بتلاتے ہیں ان میں بعض کو تو کسی درجے میں بھی مجبوری نہیں، جیسے تاجر ومزدور وحاکمِ اجلاس واہلِ حرفہ وأمثالہم کہ یہ لوگ بالکل آزاد ہیں، تھوڑی دیر کے کام چھوڑ سکتے ہیں، سو ان کے عذر کے متعلق تو کسی جواب کی ضرورت نہیں۔ بعض کو البتہ کسی درجے میں مجبوری ہے، جیسے نوکر ایسے افسر کا جس کے سامنے اپنی رائے سے کچھ نہیں کرسکتا، سو اس کے متعلق یہ ہے کہ اوّل تو اوقاتِ نماز میں اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور دیکھا سنا اکثر یہی ہے کہ بہ استثنائے شاذ و نادر کوئی افسر نماز سے منع نہیں کرتا، اور اگر کسی طرح اجازت حاصل نہ ہو، نہ خود اس سے، نہ اس کے بالا افسر سے، تو