اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بیع بالوفا کی تحقیق : تفصیل یہ ہے کہ اس وقت کے عرف میں دو معنی بیع بالوفا کے مشہور ہیں: ایک تو یہ کہ زید نے عمرو سے کہا کہ ’’ہم کو ایک ہزار روپے قرض دے کر ہمارا باغ رہن رکھ لو اس شرط پر کہ اگر ہم دس سال کے اندر ہزار روپیہ ادا کردیں تو اپنا باغ چھڑالیں اور اگر نہ ادا کریں تو وہ باغ اَسی ہزار روپے میں تمہارے ہاتھ بیع ہے۔‘‘ اور دوسرے یہ کہ زید نے عمرو سے کہا کہ ’’تم ہمارا باغ ہزار روپے میں خرید لو اور زرِ ثمن ہمیں دے دو، اوریہ وعدہ ہے کہ اگر ہم دس سال میں تمہارا زرِ ثمن واپس کردیں تو تم ہمارا باغ واپس کردو اور بیع کا اقالہ یعنی فسخ کردو۔‘‘ سو اوّل معنی کے اعتبار سے تو بالاجماع حرام اور سود ہے، اور دوسری صورت کو بھی فقہائے متقدمین نے منع کیا ہے، لیکن بعض متأخرین نے لوگوں کومبتلائے سود دیکھ کر اجازت دے دی ہے، اگر کسی شخص کا دل بہ وجہ غایتِ بے مروّتی کے ویسے قرض دینے کو گوارا نہ کرے اور بہ وجہ ضعف قوتِ تقویٰ کے وہ متقدمین کے قول کو بھی نہ لے، تو خیر سود کی اور صورتوں سے بیع بالوفا (یعنی بالمعنی الثانی) پھر غنیمت ہے کہ حرمت اس کی متفق علیہ تو نہیں، لوگوں کی کم ہمتی پر نظر کرکے بادلِ ناخواستہ کہتاہوں کہ خیر اسی کو کرلیا کریں اوروں سے تو بچیں۔ یہ بحث تھی قرض کے متعلق کوتاہیوںکی۔کوئی چیز عاریت دینے میں بخل نہ کرنا چاہیے : اور ایک ان اعمالِ مالیہ مقصودہ با۔ّلذکر میں سے کسی کو کوئی چیز عاریتاً دینا ہے، اس میں بھی بعض لوگ بہت بخل کرتے ہیں، حق تعالیٰ نے اس میں بخل کرنے کو ناپسند اور اعمالِ منافقین سے فرمایا ہے: حیث قال: {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُوْْنَ O وَیَمْنَعُوْنَالْمَاعُوْنَO}1 سو ایسے نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نمازکو بھلا بیٹھے ہیں، جو ایسے ہیں کہ رِیا کاری کرتے ہیں اور برتنے کی چیز تک نہیں دیتے۔ اور اسی حکم میں ہے وہ چیز جو بہ طورِ عاریت نہ مانگی جاوے بہ طورِ تملیک ہی مانگی جاوے، لیکن وہ بہت کم قیمت جیسے: ایک تولہ نمک، جیسے: ایک لوٹا پانی جہاں پانی کی فراغت ہو، جیسے: ایک مٹھی گھاس، اور عاریت جیسے: دیگچی، پتیلی، چمٹا، قلم بنانے کا چاقو، ایک خط لکھنے کے لیے قلم دوات ومثل ذالک۔ البتہ اگر کوئی عذر ہو، مثلاً: ایک شخص کا تجربہ ہوگیا ہے کہ وہ