اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کثرت ہیں جو نکاحِ ثانی کے ترک کو اس کے فعل پر ترجیح دیتی ہیں، جس کا سبب بہ کثرت تو یہی ہے کہ وہ نکاحِ ثانی کو عیب سمجھتی ہیں، اور بعضی زبان سے بھی ایسی باتیں کہہ ڈالتی ہیں جن میں بعض باتیں تو حدِ کفر تک پہنچ جاتی ہیں، اور بعضی عیب بھی نہیں سمجھتیں، لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ عورتیں بھی بے نکاح بیٹھے رہنے کو زیادہ ۔ّعزت کا سبب سمجھتی ہیں، اور یہ بھی درحقیقت ایک چھپا چور ہے جس کا وطن اس سر حدِ کفر میں داخل نہیں، مگر اس کے جوار (قرب) میں تو ضرور ہے ، ورنہ کامل مسلمان کیا وجہ کہ: خلافِ سنت کو زیادہ اعزاز کا سبب سمجھے۔ اور بعض غریب ایسی بھی ہیں جو نکاح کو ہر طرح مستحسن سمجھتی ہیں، اس سے ذرا بھی انقباض (ناپسندیدگی) نہیں، مگر جانتی ہیں کہ بچے ضائع ہوجائیں گے، یا یہ کہ کوئی اس کو قبول نہیں کرتا، یہ دونوں معذور ہیں، بلکہ پہلی تو۔َماجور (ثواب پانے والی) ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔منکوحہ کے مال پر نظر رکھنا بڑی بے غیرتی ہے : ایک کوتاہی ناکحین (نکاح کرنے والوں) میں یہ ہے کہ منکوحہ (جس سے نکاح کرنا مطلوب ہے) کے مال کو دیکھتے ہیں، اور درحقیقت یہ اس سے بھی بدتر ہے کہ منکوحہ یا اس کے اولیا مرد کے مال کو دیکھیں، کیوںکہ یہ تو کسی درجے میں اگر اس میں غلو نہ ہو اَمرِ معقول ہے، کیوںکہ مرد پر نفقہ ومہر عورت کا واجب ہوتاہے، تو اس پر استطاعت رکھنے کو دیکھنا مضایقہ نہیں، بلکہ ایک قسم کی ضروری مصلحت ہے، البتہ اس میں ایک قسم کا ُغلو ہوجانا کہ اس کو اور ضروری اوصاف پر ترجیح دی جائے، یہ مذموم ہے، لیکن عورت کے مال دار ہونے پر نظر کرنا محض اس غرض سے کہ ہم اس سے منتفع (فائدہ اُٹھانے والے) ہوںگے، یا ہم پر نفقات وغیرہ کا بار کم پڑے گا، بڑی بے غیرتی اور بے حمیتی ہے: چو باز باش کہ صیدی کنی و لقمہ دہی طفیل خور مشو چوں کلاغِ بے ۔َپر و بال اس کے علاوہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ مال دار عورت نادار مرد کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی، اس کو حقیر اور خادم سمجھتی ہے، اور ناکح کے والدین کا اس پر نظر کرنا کہ ایسی بہو کو بیاہ کر لائیں کہ جہیز بہت سا لائے اور بھی احمق ہیں، ان کی بھی وہی مثل ہے کہ چو موش بر سرِ دکان روستا خورسند اوّل تو وہ جہیز ۔ِملک بہو کا، کسی کو اس سے کیا، لیکن اگر یہ بھی سمجھا جائے کہ گھر میں رہے گا تو ہمارے بھی کام آئے گا (اس