اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نابالغ زوجہ کے مہر کی معافی شرعاً معتبر نہیں : ایک کوتاہی اس بارے میں یہ ہوتی ہے کہ بعضے لوگ ویسے ہی یا طلاق دینے کے وقت نابالغ زوجہ سے مہر معاف کرالیتے ہیں، سو یہ معافی معتبر نہیں، لِأَنَّ تَبَرُّعَ الصَّغِیْرِ بَاطِلٌ (تحقیق بچے کا صدقہ وغیرہ کرنا باطل ہے)۔ بعض جگہ اس سے بڑھ کر ہوتاہے کہ ولی زوجہ نابالغہ کا طلاق کا مطالبہ زوج سے کرتاہے، اور یہ ولی ہی مہر معاف کردیتاہے، سو اس صورت میں اگر زوج نے طلاق دے دی تو طلاق تو واقع ہوجائے گی، مگر مہر ساقط نہ ہوگا۔عورتوں کا مہر مانگنا شرعاً کوئی عیب کی بات نہیں : ایک کوتاہی کہ وہ عملی غلطی ہے، اس بارے میں یہ ہے کہ عورتیں مہر مانگنے کو یا بے مانگے لے لینے کو عیب سمجھتی ہیں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کو بدنام کرتی ہیں۔ سو اپنے حقِ واجب کا مانگنا یا وصول کرلینا جب شرعاً کچھ عیب نہیں تو محض اتباعِ رسم سے اس کو عیب سمجھنا گناہ سے خالی نہیں۔مہر اور نان و نفقہ دونوں علیحدہ علیحدہ حقوق ہیں : ایک کوتاہی کہ وہ علمی غلطی ہے، یہ ہے کہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگرہم نے مہر لے لیا تو پھر ہمارا کوئی حق خاوند کے ذ۔ّمے نہ رہے گا، یعنی نان ونفقہ اور دیگر حقوقِ معاشرہ سب ساقط ہوجائیںگے۔ سو یہ اعتقاد محض غلط ہے، سب حقوق الگ الگ ہیں، ایک حق دوسرے پر مبنی نہیں، مہر لینے سے دوسرا کوئی حق ساقط نہیں ہوتا، اور اس اعتقادِ باطل کا یہ اثر ظاہر ہوا ہے کہ شوہر مہر ادا کرتاہے اور عورت نہیںلیتی اور نہ معاف کرتی ہے، ایسی صورت میں اگر زوج پر ادائے حق کا غلبہ ہوا اور مسائل سے ناواقف ہوا تو بے حد پریشان ہوتا ہے، کہ اب میری براء ت و سبک دوشی (ذ۔ّمہ داری سے فراغت) کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ اس لیے اس کا مسئلہ بتلایا جاتاہے کہ اس صورت میں اگر شوہر مالِ مہر زوجہ کے سامنے اس طرح رکھ دے کہ وہ اس کے قبضے پر قادر ہوا ور رکھ کر یہ کہہ دے کہ یہ تمہارا مہر ہے، اور یہ کہہ کر اس مجلس سے اُٹھ جائے تو مہر ادا ہوگیا، خواہ عورت اُٹھالے یا نہ اُٹھائے، اگر اس نے نہ اُٹھایا اور دوسرا کوئی لے گیا تو وہ زوجہ کا گیا اور اگر بہ خیال ضائع ہونے کے خاوند اُٹھالے گا تو وہ اس کے پاس زوجہ کی امانت رہے گا، شوہر کی ملک نہ ہوگا۔