اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
البتہ مہر ساقط نہ ہوگا جب خلوتِ صحیحہ سے مؤکد ہوچکا ہو۔ یہ سب کلام تھا بی بی کے نفقہ کے متعلق۔نابالغ اولاد کا نفقہ بھی باپ پر واجب ہے : اب سمجھئے کہ بی بی کی طرح نابالغ اولاد کا بھی نفقہ باپ پر واجب ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ بی بی تو اگر مال دار بھی ہو تب بھی شوہر پر اس کانفقہ واجب ہے، اور اولاد کا اس وقت واجب ہے جب وہ مال دار نہ ہوں، ورنہ خود اُن کے مال میںسے ۔َصرف کیا جائے گا، باپ کے مال میں واجب نہ ہوگا۔میراث کے مالک بچے کا نفقہ باپ پر واجب نہیں : مثلاً: ایک بچے کی ماں مرگئی، اور اس نے زیور، جائیداد وغیرہ چھوڑا، جس میں اس بچے کو بھی میراث پہنچی، سو جب تک یہ میراث کا حصہ باقی ہے اُس وقت تک اس بچے کا خرچ باپ کے ذ۔ّمے نہیں، اگر نقد نہ ہو، باپ کو اجازت ہے کہ اس کو بیچ بیچ کر اس کی ضروریات میں خرچ کرتا رہے، البتہ اگر فضولیات میں ۔َصرف کرے گا اپنے پاس سے بھرناپڑے گا، اور یہ مسئلہ بہت مشکلوںکا حل کرنے والا ہے، اور بہت سی بے احتیاطیوں کا بند کرنے والا ہے، مثلاً: بہت لوگ ایسے موقع پر بچوں کا حصہ تقسیم کرکے جدا نہیں کرتے، اور یوں سمجھتے ہیں کہ اس تقسیم سے ہمارا نقصان ہے کہ خرچ ان بچوں کا ہمارے ذ۔ّمے ہے، اور پھر اتنا مال اور الگ کردو تو ہر طرح ہم ہی خسارے میں رہے، اور اس لیے اس کو بار سمجھتے ہیں ، سو اب اس مسئلے سے یہ اِشکال رفع ہوگیا کہ تمہارا اس میںکوئی نقصان نہیں، جب تک اُن کا حصہ خرچ نہ ہوجائے تمہارے ذ۔ّمے ان کا نفقہ ہی واجب نہیں، البتہ اُن کا حساب رکھنے میں بہت احتیاط رکھنا چاہیے، سو یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ یہ تفصیل تو نابالغ ہونے تک ہے،اور بالغ ہونے کے بعد پھر نفقہ واجب نہیں رہتا، البتہ اگر یہ خود غنی ہے، اور لڑکی کی شادی نہیںہوئی، گو بالغ ہے، یا لڑکی کسی مرض وغیرہ کے سبب کسب سے عاجز ہے، گو بالغ ہے، تب اس کا نفقہ بھی واجب ہوگا۔محتاج والدین کا نفقہ مال دار اولاد پر واجب ہے : ایک غلطی یا کوتاہی کہیے، یہ ہے کہ بجز بی بی اور اولاد کے اور کسی کا