اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں نے اپنے بعض اساتذئہ کتبِ ابتدائیہ سے رئیس الاتقیاء حضرت مولانا مظفر حسین صاحب ؒ کی حکایت سنی ہے کہ اسباب دکھلانے کے بعد اگر کوئی شخص ایک خط بھی دیتا تھا کہ فلاں شخص کو دے دیجیے تو فرمادیتے تھے:’’یہ گھوڑے والے سے اجازت لے لو، کیوںکہ یہ مشروط سے زیادہ ہے۔‘‘ میرا اس حکایت کے نقل کرنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہاں تک رعایت واجب ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ دیکھئے! احتیاط والے امرِغیرِ واجب تک کی رعایت واہتمام کرتے ہیں، جس سے غرض یہی ہوتی ہے کہ دوسرے دیکھنے والے واجب کا تو خیال کریںگے، تو مطمح نظر اُن کا تعلیم ہی ہے، اب اس کے بعد شبہ غلو یا تقشف کا بھی زائل ہوگیا، سو اس حالت میں ہم کو اُمورِ واجبہ کی تو رعایت واہتمام کرنا چاہیے۔ یہ غلطیاں تو معاملات کے متعلق تھیں جو سفر میں ہوتی ہیں۔سفر میں نماز چھوڑنا دیانات کے خلاف ہے : بعض غلطیاں دیانات کے متعلق ہوتی ہیں، مثلاً: بعض آدمی سفر میں نماز چھوڑ دیتے ہیں اور جی کو سمجھا لیتے ہیں کہ ’’وضو اور نماز میں بڑی مشکلیں پڑتی ہیں، اس لیے قضا کرلیں گے۔‘‘ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ وہ مشکلیں قابلِ برداشت ہیں یا ناقابلِ برداشت ہیں؟ اگر قابلِ برداشت ہیں تو فرض کے لیے برداشت کرو، اور ناقابلِ برداشت ہیں تو جو لوگ سفر میں نماز کے پابند ہیں وہ کیسے برداشت کرتے ہیں؟ واللہ! اگر کسی خفیف سی دُنیوی غرض کی تکمیل میں اس سے بدرجہا زائد اہتمام کرنا پڑے تو خوشی خوشی سب گوارا کریں، مگر وہ تو دین ہی کے نام سے روح قبض ہوتی ہے۔ بعض نماز تو پڑھتے ہیں، لیکن اس کے شرائط وارکان کی کچھ پروا نہیں کرتے، کوئی تیمم ہی کررہا ہے اور پانی اسٹیشن پر یا نل کے اندر موجود، مگر طبیعت قبول نہیں کرتی کہ وہ پانی پاخانے کاہے، گو اس میں پاخانہ ملا ہوا نہیں، مگر منسوب پاخانے کی طرف ہے۔ غضب کی بات ہے کہ شریعت کے ہوتے ہوئے دینیات میں طبیعت کو ترجیح دی جاوے، پھر تیمم بھی کپڑے پر جس پر غبار بھی ندارد، جو اجازتِ تیمم کی صورت میں بھی جائز نہیں، اور تختے پر گرد موجود ہے، مگر اس کو یہ کہہ کر اُڑادیا کہ ’’اس کا کیا اعتبار؟‘‘ کاش! اگر مسائلِ شرعیہ کی تحقیق کرتے تو یہ مسئلہ بھی ان کو معلوم ہوتا کہ ایسی صورت میں ان کے اس وہم ہی کا کچھ اعتبار نہیں، اصل اشیا میں طہارت ہے، جب تک تختے کا نجس ہونا یقینی نہ ہو اس وقت تک طاہر ہی ہے۔ بعضے استقبالِ قبلہ ہی کی ضرورت نہیں سمجھتے، محض اس لیے کہ رُخ سیدھا کرنے میں قدرے تکلیف کرنا پڑتا ہے، سو اگر دیکھا جاتا ہے کہ یہ لوگ دُنیا کے کسی کام کے لیے خفیف مشقت بھی گوارا نہیں کرتے تو ان کے اس عذر کو سناجاتا، گو سننے