اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ نذر بھی منعقد نہیں ہوتی۔ (الدّرالمختار) البتہ اضافت الی سبب الملک حکم ِ۔ِملک میں ہے، مثلاً: اگر یہ نذر کی کہ ’’اگر فلانی گائے خریدوں تو اس کی ذبح للتصدق کی نذر کرتا ہوں۔‘‘ تو گو وہ اس وقت ۔ِملک میں نہیں لیکن اسی طور سے نذر منعقد ہوجائے گی اور بعد اشتراء (خریداری) اس نذر کا اِیفا واجب ہوگا۔ اور ۔ِملکِ غیر میں نذر کرنے کی ایک فرع یہ بھی ہے کہ کسی یتیم کے تن درست ہونے پر نذر کرتے ہیں کہ اسی کے روپیہ سے اتنے مساکین کو کھانا کھلا دیں گے، یہ نذر بھی باطل ہے۔ایسی چیز کی نذر نہ کرے جو اپنی طاقت سے باہر ہو، اگر کرلی تو ایفا واجب ہوگا : ایک کوتاہی یہ ہے کہ جس طرح صورتِ بالا میں نذرِ مالی اس قدر کرلی تھی جو ۔ِملک میں نہ تھی اسی طرح بعضے ایسی عباداتِ بدنیہ کی نذر کرلیتے ہیں جو ان کی طاقت سے خارج ہے، مثلاً: یہ نذر کرلی کہ ’’عمر بھر روزے رکھوں گا یا تازیست ہر سال حج کروںگا۔‘‘ اور کبھی ایسا ہوتاہے کہ خفیف خفیف نذریں بہت سی جمع ہونے سے وہ ثقیل ہوگئی، مثلاً: کئی بار میں دس دس روزوں کی نذر کی مگر ادا میں سستی کرنے سے وہ جمع ہوکر ایک ہزار روزے ہوگئے، جو تین سال میں جب کہ بلا ناغہ رکھے جائیںپورے ہوسکتے ہیں، جس کا موقع بہ ظاہر ملنا نہایت بعید ہے، پھر اس کے بعد ناواقفی سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ اس میں سے جتنا جی چاہا پورا کردیا بقیہ کا کوئی تدارک نہیں کیا جاتا، سو سمجھ لینا چاہیے کہ اوّلاً ایسی نذر نہ کرے اور اگر ہوجائے تو اس کو پورا کریں، اور اگر پورا ہونے سے رہ جائے، اس کا بدل کریں اور اگر موت آجائے تو اپنے ترکہ میں اس کے متعلق وصیت کریں، مثلاً: عمر بھر کے روزے رکھنے کی نذر کرلی تو جتنے روزے نہ رکھ سکے اس کا فدیہ دے۔ (الدّرالمختار) اور جو مرنے کے وقت رہ جائیں فدیہ کی وصیت کرے۔ (الدّرالمختار وردّ المحتار قبیل باب اعتکاف) یاتیس حج کی نذر کرلی اور نہ کرسکا تو وصیت کرجائے۔ (ردّ المحتار)حلِ شبہ : ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ نذر مت کرو کہ نذر سے تقدیر نہیں ٹلتی، البتہ اس کے ذریعے سے بخیل کے پاس سے کچھ (نیک کام میں) نکل آتا ہے (جو بلا نذر اس نیک کام میں خرچ نہ کرتا) الخ (بالحاصل) ۔ اس سے شبہ یہ ہوتا ہے کہ اُوپر نذر کا عبادت ہونا ثابت ہوچکا ہے اور عبادت مامور بہ ہوتی ہے گو درجۂ ندب ہی میں ہو اور اس حدیث سے اس کا منہی عنہ ہونا ثابت ہوتا ہے گو درجۂ کراہت ہی میں ہو، پس ان میں جمع ہونے کی کیا صورت ہے؟ جواب یہ ہے کہ نذر خود عبادتِ مقصودہ نہیں بلکہ اس کا عبادت ہونا اس لیے ہے کہ وہ دوسری عبادتِ مقصودہ سے متلبس و متعلق اور ان کا ذریعہ اور سبب ہے، (في ردّ المحتار، أحکام الیمین والنذر، أما کونہ قربۃ فلما