اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے۔ ۷۔ علیٰ ہذا اگر امام مسافر بعد دو رکعت کے سہواً کھڑا ہوجائے، مقتدی مقیم کو اس کے ساتھ مقتدی رہنا مفسدِصلاۃ فرض ہے۔ اس مقام پر مسائل کا استیعاب مقصود نہیں اور نہ ممکن ہے، محض بعض مثالیں پیش کرنا ہے کہ ایسی صورتیں کس کثرت سے واقع ہوتی ہیں، جن میں نماز نہیں ہوتی اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔ اسی طرح شرائط میں بھی بے پروائیاں کی جاتی ہیں: ۸۔ بعضے آدمیوں کو دیکھا گیا ہے کہ کپڑے پر، تکیے پر اگرچہ غبار نہ ہو، تیمم کرلیتے ہیں۔ ۹۔ بعض کو دیکھا ہے کہ اگر وضو وغسل میں کہیں پاؤں وغیرہ خشک رہ جاتا ہے ویسے ہی تر ہاتھ پھیر لیتے ہیں جوکہ مسح ہے، پانی ڈال کر نہیں دھوتے۔ ۱۰۔ بعض آدمی باوجود اندیشہ قطرہ کے فوراً صرف پانی سے استنجا کرلیتے ہیں اور پھر قطرہ آجاتا ہے، اگر خبر بھی ہوگئی اور وضو بھی دہرالیا گیا، مگر پائجامہ پاک نہیں کرتے اور اس طرح کئی بار میں مقدارِ عفو سے بڑھ جاتاہے اور اسی کپڑے سے نماز پڑھتے رہتے ہیں، اور اگر علم نہ ہوا تو بے وضو ہی نماز پڑھی جائے گی۔ اور اگر شبہ ہو کہ بے خبری میں معذور ہے، جواب یہ ہے کہ معذور اس وقت ہے کہ جب نقضِ وضو کا احتمال غالب نہ ہو، ورنہ اس احتمال کا انسداد واجب ہوگا اور جب قوی کا ضعف مشاہدہ ہو تو قطرے کا قطع کرنا ضروری ہوگا اور تجربے سے اس باب میںکلوخ سے بہتر کوئی چیز ثابت نہیں ہوئی۔نااہل کو امام بنالینا : اسی طرح بہت جگہ امام ایسے ہیں کہ نماز لوگوں کی فاسد یا مکروہ ہوتی ہے، پھر بعض جگہ تو مقتدی ہی اس خرابی کا سبب ہوتے ہیں، یعنی امام کا ۔ّتقرر کرنے کے وقت اس کی صلاحیت واہلیت کو نہیں دیکھتے، بلکہ اکثر دیکھا جاتاہے کہ محلہ بھر میں جو شخص سب سے نکما ہوتاہے اس کو ارزاں سمجھ کر امامت کے لیے تجویز کیا جاتاہے، چاہے اس کو قرآن پڑھنا بھی نہ آتا ہو، خواہ اس کو مسائل بھی یاد نہ ہوں اور بعض جگہ مقتدیوں کا کچھ دخل ہی نہیں ہوتا خود ہی براہِ تکبر بعض اہلِ وجاہت امام بن بیٹھتے ہیں اور قصبات میں جمعہ وعیدین کے اکثر ائمہ اسی شان کے ہیں اور اس خرابی کی ابتدا امامت کا موروث ہونا ہے، جس کی بنا بعض سلاطینِ وقت سے پڑی ہے، اس وقت گو اس میں کوئی مصلحت ہو، مگر اب تو اس میں اس قدر مفاسد