اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۔ یہ ۔تصوّر کرے کہ حق تعالیٰ مجھ کو فرمایش کرتے ہیں کہ ہم کوپڑھ کر سناؤ۔ ۳۔ یہ ۔تصوّر کرے کہ اگر کوئی مخلوق مجھ سے ایسی فرمایشیں کرتی تو میں کیسا پڑھتا؟ تو خدا تعالیٰ کی فرمایش کی تو زیادہ رعایت چاہیے اور اس کے بعد تلاوت شروع کرے۔ اور جب یہ ۔تصوّر ضعیف ہوجائے تلاوت بندکرکے اسی مراقبے کوپھر تازہ کرے، البتہ اگر تکثیرِتلاوت مقصود ہو اور اتنی مہلت نہ ہوکہ مقید ہوکر بیٹھ سکے تو ان آداب میں تخفیف ہوسکتی ہے، مگر تجوید بہ قدرِ واجب میں تخفیف ممکن نہیں۔عمل سے غفلت : دسویں کوتاہی یہ ہے کہ بعضے سب طرح کے لیپ پوت کرلیتے ہیں مگر جو نزول سے مقصودِ اعظم ہے اور قرآن کا سب سے بڑا حق ہے، یعنی عمل، اس کا کچھ بھی اہتمام نہیں کرتے، چوںکہ اس کے اعتقاد کی ضرورت میں کسی کو کلام نہیں، اس لیے ہم اس میں تطویل نہیں کرتے۔ البتہ یہ امر قابلِ تنبیہ ہے کہ عمل کا طریقہ وہی معتبر ہے جو سلف نے بتایا اور عمل کرنے میں ان سب علوم کو دخل ہے جن کا صحیح وحجت ہونا خود قرآن نے بتلایا ہے۔ یعنی حدیث و فقہ و کلام و فرائض و تصوّف، جو سلف کے خلاف نہ ہو۔ افسوس! بعضے لوگ اس وقت قرآن کا اتنا ہی حق سمجھتے ہیں کہ اس کی قسم کھالی، بیمار کو اس کی ہوا دے دی، اس سے فال نکال لی، بچے کانام نکال لیا، چوری کے شبہ میں لوٹے پر یٰسین پڑھ کر اس کو گھمادیا، کوئی مرگیا دوچارختم پڑھوادیے، یا کہیں کہیں دستور ہے کہ ایک قرآن کے عوض میّت کے سارے گناہ فروخت کرڈالے یا تعویذ بناکر بازوپر باندھ لیا۔ افسوس! کیا رسول اللہ ﷺ پر تئیس سال تک اس کا نزول اور مخالفین کی اذیت پر تحمل بس ان ہی مقاصد کے لیے تھا؟ یہ دس کوتاہیاں ہیں جو بہ طورِ نمونہ کے بیان کی گئیں، کسی میں ایک ہے، کسی میں ۔ّمتعدد، کسی میں مجموع، اوریہ سب متعلق تحصیل کے تھیں، اب اس کے ملحقات میں سے ایک کوتاہی استماع کے متعلق ذکر کرکے اس مضمون کو ختم کرتاہوں۔الفاظ و معنی کے آداب میں کوتاہیاں : وہ گیارہویں کوتاہی یہ ہے کہ اس کے الفاظ یا معنی کا ادب بھی ملحوظ نہیں رکھا جاتا، چناںچہ جہری نماز میں قرأ ت امام کی طرف توجہ نہیں کی جاتی، حالاںکہ امر {فَاسْتَمِعُوْا} (تو اس کی طرف کان لگائے رہو) کو داخلِ نماز کے وجوب کے لیے کہا گیا ہے، خارجِ نماز کے تلاوت کرنے والے کی آواز پر اپنے دنیوی مخاطبات میں