اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تنبیہ: اگر ناواقفیتِ مسائل یا بے پروائی سے گزشتہ زمانے میں بچوں کا صدقۂ فطر نہ دیا ہو یا مؤذّن وغیرہ کو اُجرت میں دے دیا ہو یا غنی کو دے دیا، تو یاد کرکے اور حساب لگاکر اب مساکین کو اس مقدار کے موافق دے دیں تاکہ ذ۔ّمہ فارغ ہوجائے، اور صدقۂ فطر کے مسائل ۔ُعلما سے دریافت کرکے یا ’’بہشتی زیور‘‘ میں مطالعہ کرکے خود بھی عمل کرنا اور دوسروںکو آگاہ کرنا چاہیے۔نمازِ عید اس میں بھی چندکوتاہیاں ہوتی ہیں: ۱۔ ایک یہ کہ بعض لوگ اس نماز کا طریقہ ہی نہیں جانتے، اور غضب یہ کہ اتنی تو فیق بھی نہیں ہوتی کہ آٹھ دس دن پہلے یاد ہی کرلیں، اس سے زیادہ کیا بے پروائی ہوگی۔ ۲۔ ایک یہ کہ اکثر جگہ یہ نماز بہت ہی دیر میںپڑھتے ہیں، حالاںکہ صریح سنت اس کے خلاف آئی ہے۔ ۳۔ ایک یہ کہ بہت جگہ امام اور خطیب جاہل ہیں جو بنا بردعوائے استحقاقِ آبائی، نماز پڑھاتے آئے ہیں، جن میں اکثر تو ایسے جاہل ہیں کہ خطبہ اور سورت تک صحیح نہیں پڑھ سکتے، اور اگر نماز میںکوئی سانحہ پیش آجائے جس میں مسائل جاننے کی ضرورت ہو تو کچھ نہیں کرسکتے، یہ تقدم انھوںنے اختیار تو کیا تھا ترفّع کے لیے، لیکن اس جہل کی بدولت ان کی اس قدر فضیحتی اور رُسوائی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ، اور اگر اس درجے کے جاہل نہ ہوئے تب بھی مدعیٔ مرائی، متفاخر، متصنّع کے پیچھے نماز پڑھنے کو ۔ُفقہا نے خود مکروہ کہا ہے۔ اس کا انسدادِ سہل بجز اس کے کچھ نہیں کہ اہلِ حل و عقد یعنی بستی کے عمائداس امام کو معزول کرکے کسی اہل کو ۔ّمقرر کریں، اور آیندہ اس رسم کو موقوف کریں کہ امام کا بیٹا ہی امام ہو، بلکہ اس کی وفات کے بعد پھر جو سب میں زیادہ اہل ہو اس کو ۔ّمقرر کریں، وہلم جرا۔ (اسی طرح آگے تک)۔ ۴۔ ایک کوتاہی یہ کہ بعضے جو بہ زعمِ خودمقتدا ہیں، متبوعِ مستقل بننے کی غرض سے عید گاہ کو چھوڑ کر اپنے محلے کی مسجد میں عید کی نماز پڑھتے ہیں، جس مسجد کی یہ فضیلت ہو کہ وہاں ایک نماز برابر پچاس ہزار نماز کے ہو(یعنی مسجدِ نبوی)