اصلاح انقلاب امت - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بعض کوتاہیاں عام اجنبی لوگوں کی طرف سے ہوتی ہیں، مثلاً: ایک یہ کہ مسجد میں کسی ظالم کا ۔ّتصرف دیکھ کر یہ رائے گھڑ لینا اور اپنی طرف سے فتویٰ دے لینا کہ اب یہ مسجد ہی نہیں رہی، اس میں ویسا ثواب نہیں ہوگا، یا یہ کہ اس میںاِذنِ عام نہ رہا اس لیے یہاں جمعہ درست نہیں، اور یہ تجویز تراش کر دوسری مسجد کے بنانے کا سامان شروع کردینا جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یا تو دوسری مسجد آباد نہیں ہوتی یا پہلی ویران ہوجاتی ہے، اور آئے دن کے جو جھگڑے رہتے ہیں وہ الگ، خود یہ مسئلہ ہی سمجھنا غلط ہے کہ ظالم کے ۔ّتصرف سے وہ مسجد نہیں رہی یا اِذنِ عام باطل ہوگیا، مسجد مسجد ہی ہے اور وہ ظلم اس کا مخلِ اذنِ عام نہیں ہے، اِذنِ عام کا شرط ہونا ارضِ مملوکہ میں ہے نہ کہ ارضِ موقوفہ میں۔ وہاں شریعت کا اِذنِ عام ہے جس کو کسی کا ظلم زائل نہیں کرسکتا، بجائے اس مسئلہ تراشنے کے اس ظلم کو بہ شرطِ قدرت روکنا چاہیے، اور وقف کی حفاظت چاہیے۔ اور مثلاً: ایک یہ کہ وقف کو برباد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور باوجود قدرت کے التفات نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ ہم کو کیا غرض پڑی ہے۔ صاحبو! کیا دین بھی ایسی چیز ہے کہ جس کی نسبت بے غرض کا دعویٰ کیاجائے؟ ہم کو تو بہت بڑی غرض ہر وقت ثواب کی پڑی ہے، ہاں! قدرت نہ ہونے پر مجبوری ہے۔ اور مثلاً: ایک یہ کہ بعض لوگ جو ۔َمصرف اس وقف کے نہیں ہیں وہ بھی اس سے منتفع ہوتے ہیں، مثلاً: ایک مسافرخانہ خاص مساکین کے لیے بنایا گیا، مگر اس میں اغنیا و اُمرابھی بہ وجہ بخل کے قیام کرتے ہیں، جو کسی طرح جائز نہیں۔ نیز ہر طبقے کی طبقاتِ مذکورین سے اور بھی کوتاہیاں ہیں، مگر نمونے کے لیے اِ ن شاء اللہ اس قدر بھی کافی ہے، ان ہی محظورات کو دیکھ کر بعض دانش مندوں کی رائے یہ ہونے لگی ہے کہ اکثر اوقات ایسے اوقاف سے تو یہی بہتر ہے کہ بجائے وقف کرنے کے اس جائیداد وغیرہ کو بیچ کر اس کے دام اپنے ہاتھ سے کسی نیک کام میں َصرف کردے، لیکن یہ ایک رائے ہے جس کا منشا ایک تعلقِ طبعی ہے، کوئی حکم ِشرعی نہیں، خائنوں کی خیانت وقف کے مرغوب فیہ ہونے میں ۔ُمخل نہیں ہوسکتی، واقف کو بہ وجہ نیت کے بقائے ذات وقف تک باقیاتِ صالحات کا ثواب ملتا رہے گا اگرچہ اس سے انتفاع منقطع ہوجائے۔ساری جائیداد وقف کردینا : ایک کوتاہی اور ہے کہ رنگ اس کا عبادت ہے، مگر اس کے آثار پر نظر کرکے شریعت نے اس کو پسند نہیں کیا، یہ ہے کہ کوئی شخص جس کا قلب متحمل تنگی وتہی دستی کا نہ ہو، اپنی تمام جائیداد یا متاع کو وقف کردے، بعض صحابہؓ نے جوشِ سخاوت میں ایسا ارادہ کیا بھی تھا، مگر حضورﷺ نے منع فرمایا، چناں چہ حدیث میں: